ايك كمپنى اپنے ملازمين كو قرض ديتى ہے، جو بنك سے جائداد كى مد ميں ملتا ہے، قرض پر لگنے والا سود كمپنى ادا كرتى ہے، اور ملازم كو قرض پر كچھ ٹيكس حكومت كو ادا كرنا پڑتے ہيں، اصل پر كوئى ٹيكس نہيں، تو كيا ملازمين كے ليے يہ قرض حلال ہے كہ نہيں ؟
كمپنى ملازمين كو سودى قرض ديتى ہے
سوال: 33709
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ملازمين كے ليے يہ قرض لينا جائز نہيں، حالانكہ – حقيقت ميں – وہ معاہدے كے ايك فريق ہيں، اور سنت نبويہ حديث شريف سے ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور كھلانے اور اسے لكھنے اور دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى ہے.
جابر رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود خور اور سود كھلانے اور اسے لكھنے اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: وہ سب برابر ہيں” صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).
ظاہر ہے كہ كمپنى قرض اس وقت تك نہيں ليتى جب تك وہ اس قرض كے حصول ميں ملازم كى رغبت كى درخواست وصول نہ كرلے، لہذا ملازم كمپنى كے ساتھ سودى قرض كے حصول ميں متعاون ہے اور اس كا سبب ہى وہ خود ہے.
حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون نہ كرو المائدۃ ( 2 ) .
لہذا ملازمين پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ اس قرض سے بے پرواہ اور مستغنى ہو جائيں، اور اسے ترك كے اللہ تعالى سے اجروثواب كے حصول كى نيت ركھيں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى انہيں اس كے چھوڑنے كے عوض ميں بہتر اور اچھى چيز مہيا كردے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب