سوال: ایک لڑکا بے پردہ لڑکی کیساتھ باہر گیا، تو اسے کسی نے کہہ دیا: “تم اسلام سے مرتد ہو چکے ہو” اب یہ جملہ کہنے والے شخص کا کیا حکم ہے؟
بے پردہ لڑکی کیساتھ باہر نکلنے کی وجہ سے کسی شخص پر کفر کا فتوی لگانا
سوال: 33769
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مسلمان کو کسی پر لفظ “کفر” کا اطلاق کرتے ہوئے خوب احتیاط برتنی چاہیے؛ کیونکہ کسی موحد مسلمان پر کفر کا فتوی لگانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، چنانچہ امام مسلم (60) نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی بھی شخص اپنے بھائی کو کافر کہہ کر پکارے تو یہ دونوں میں سے کسی ایک پر ضرور جائے گا؛ اگر وہ واقعی کافر تھا تو ٹھیک وگرنہ کہنے والے پر لوٹ جائے گا)
اسی طرح بخاری (6045) میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو فاسق یا کافر قرار دے تو یہ لفظ اس شخص کے ایسا نہ ہونے کی صورت میں کہنے والے پر لوٹ جائے گا)
دوم:
برائی سے منع کرنے یا کسی نافرمان شخص کو نصیحت کرتے وقت شفقت اور نرمی سے بات کرنی چاہیے؛ کیونکہ اس طرح کرنے سے بات زیادہ قابل قبول ہوگی، اور اثر بھی کریگی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی نرمی والا ہے، اور نرمی پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سختی پر عطا نہیں کرتا، بلکہ وہ کچھ بھی عطا فرماتا ہے جو کسی اور وجہ سے نہیں دیتا)
اس حدیث کی شرح میں نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس حدیث میں نرمی کی فضیلت اور اسے اپنانے کی ترغیب دلائی گئی ہے، ساتھ میں سختی کی مذمت بھی کی گئی، حقیقت یہی ہے کہ نرمی ہمہ قسم کی خیر و بھلائی کا سر چشمہ ہے۔
اور ” نرمی پر عطا فرماتا ہے ” کا مطلب یہ ہے کہ نرمی کی وجہ سے اتنا اجر و ثواب عطا فرماتا ہے جو کسی اور عمل پر نہیں ملتا۔
قاضی اس کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: نرمی سے ایسے اہداف بھی انسان آسانی سے حاصل کر لیتا ہے جو کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوتے” انتہی
لہذا کسی گناہگار شخص کو “کافر”، “فاسق” ، “مرتد” اور اسی طرح کے دیگر الفاظ کسنے سے عین ممکن ہے کہ وہ آپ سے متنفر ہو جائے اور حق بات قبول کرنے کی بجائے سرکشی اختیار کرے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابو ذر رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے دوسرے شخص کو کہا: “تم فاسق ہو” یا “تم کافر ہو” اور حقیقت میں مخاطب ایسا نہ ہوا تو کہنے والا ہی ان اوصاف کا مستحق ٹھہرے گا، تاہم اگر مخاطب واقعی فاسق یا کافر تھا تو متکلم کے سچے ہونے کی وجہ سے یہ وصف اس پر نہیں لوٹے گا، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر متکلم کافر یا فاسق نہ ہوا تو اسے کسی کو کافر یا فاسق کہنے کا گناہ بھی نہیں ملے، اس بارے میں قدرے تفصیل ہے کہ: اگر متکلم نے مخاطب کو یہ الفاظ بیان کر کے اس کی اصلاح کیلئے حقیقت بیان کرنا مقصود تھا تو اس صورت میں تو جائز ہے، لیکن اگر محض بے عزت اور بدنام کرنا مقصود ہو تو ایسی صورت میں جائز نہیں ہوگا؛ کیونکہ مسلمان کو عیب پوشی اور پردہ داری رکھتے ہوئے اچھے انداز سے نصیحت اور سمجھنا نے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ جہاں تک ممکن ہو کہ سختی کے بغیر کام چل سکتا ہے چلائے، سختی سے دور رہے؛ کیونکہ سختی سے عین ممکن ہے کہ بد چلن شخص مزید سرکشی ، بے باکی، اور ڈھیٹ پن پہ اتر آئے، سختی کرنا تشدد پسند لوگوں کا طریقہ ہے” انتہی
سوم:
بے پردہ لڑکی کیساتھ جانے کا عمل کفر تو نہیں ہے لیکن گناہ ہے؛ کیونکہ اس طرح فحاشی کا ارتکاب ہونے کا خدشہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، اس لیے بے پردہ لڑکی کیساتھ باہر جانے والے شخص کو اچھے انداز سے نصیحت کرنی چاہیے، امید ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے دے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
فتاوى اللجنة الدائمة ( 17/66)