انٹر نيٹ كيفے كھولنا اور انٹر نيٹ كے كام ميں سرمايہ كارى كرنے كا حكم كيا ہے، يہ علم ركھيں كہ يہاں آنے والے بعض لوگ شرعى طور پر حرام ويب سائٹ كا وزٹ كرتے ہيں… ميں صرف اتنا كر سكتا ہوں كہ ہر كمپيوٹر كے ساتھ كچھ پند ونصائح آويزاں كردوں جس مي ان ويب سائيٹس كى حرمت بيان كى گئى ہو.
اس ليے كہ نيٹ استعمال كرنے والا شخص ايك عليحدہ جگہ پر ہوتا ہے تاكہ اسے خصوصيت كى ضمانت دى جا سكے، اس طرح ميں نيٹ استعمال كرنے والوں كى سو فيصدى نگرانى نہيں كر سكتا كہ وہ كيا ديكھ رہے ہيں… اور كيا ميں بھى گنہگار ہوں يا كہ صرف نيٹ استعمال كرنے والا اكيلا ہى اپنے برے افعال كا ذمہ دار ہو گا ؟
انٹر نيٹ كيفے كھولنا ليكن استعمال كرنے والوں كى نگرانى نہ ہو
سوال: 34672
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
انٹر نيٹ كيفوں ميں كام يا سرمايہ كارى كرنا جائز نہيں، ليكن ايك شرط پر ہو سكتا ہے كہ جب اس ميں كوئى منكر اور برائى نہ ہو اور يہ بالكل خالى ہو، اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ حرام اور فحش ويب سائٹس كا ويزٹ كرنے والوں كو روكنا ممكن نہيں، كہ يہ ويب سائٹس ان پر بند كى جائيں، يا پھر جب وہ انہيں ديكھنے پر اصرار كريں تو انہيں كيفے سے نكال ديا جائے، كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:
اور تم نيكى و بھلائى ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ تعالى بہت سخت سزا دينے والا ہے المائدۃ ( 2 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
بنى اسرائيل كے كافروں پر داود عليہ السلام اور عيسى بن مريم عليہ السلام كى زبانى لعنت كى گئى اس وجہ سے كہ وہ نافرمانياں كرتے تھے، اور حد سے تجاوز كرتے تھے، جو وہ برے كام كرتے تھے آپس ميں وہ ايك دوسرے كو اس سے روكتے نہيں تھے، يقينا وہ بہت برا تھا جو كرتے رہے ہيں المائدۃ ( 78 – 79 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس كسى نے بھى ہدايت كى طرف راہنمائى كى تو اسے اس پر عمل كرنے والے جتنا ہى اجروثواب حاصل ہو گا، اور ان كے اجروثواب ميں كوئى كمى نہيں كى جائے گى، اور جس كسى نے گمراہى اور ضلالت كى طرف راہنمائى كى اس پر بھى اتنا ہى گناہ ہے جتنا اس برائى كے كرنے والے كو ہو گا، اور ان كے گناہ ميں كچھ بھى كمى نہيں ہو گى”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2674 ).
اور ايك حديث ميں فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:
” جس كسى نے بھى كسى برائى كو ديكھا اسے چاہيے كہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اگر وہ اس كى طاقت نہيں ركھتا تو اسے اپنى زبان سے روكے، اور اگر اس كى بھى طاقت نہيں ركھتا تو پھر اپنے دل كے ساتھ روكے، اور يہ ايمان كا كمزور ترين حصہ ہے”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
دل كے ساتھ برائى كا انكار كرنا اور اسے روكنا ہر ايك شخص پر فرض ہے اور دل سے روكنا يہ ہے كہ: برائى سے بغض ركھا جائے، اور اسے ناپسند كيا جائے، اور برائى كو ہاتھ اور زبان سے منع كرنے كى استطاعت نہ ہونے كى حالت ميں برائى كرنے والوں سے جدا اور مفارقت اختيار كى جائے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جب آپ ان لوگوں كو ديكھيں جو ہمارى آيات كے ساتھ ہنسى مذاق كر رہے ہيں تو آپ ان سے اس وقت تك اعراض كريں جب تك وہ كسى اور بات چيت ميں نہيں لگ جاتے، اور اگر آپ كو شيطان بھلا دے تو ياد آجانے كے بعد ظالموں كى قوم كے ساتھ مت بيٹھيں الانعام ( 68 ).
انتہى: ماخوذ از: الدرر السنيۃ فى الاجوبۃ النجديۃ ( 16 / 142 ).
لھذا جب انٹر نيٹ كيفے پر كنٹرول كرنا ممكن نہيں، اور وہاں سے برائى ختم كرنا اور منع كرنا ناممكن ہے تو پھر كيفے كھولنا جائز نہيں ہے، تا كہ گناہ اور معصيت و نافرمانى ميں پڑنے سے بچا جا سكے.
اور اگر آپ يہ كام اللہ تعالى كا قرب اور اس كى خوشنودى كے حصول كے ليے ترك كرتے، اور شك والى چيز سے دور ہوتے ہيں تو پھر آپ مندرجہ ذيل حديث كى خوشخبرى حاصل كرنے كے ليے تيار رہيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
” جو كوئى بھى كسى چيز كو اللہ تعالى كے ليے ترك كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے اس كے عوض ميں اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز عطا فرماتا ہے”
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ كے ليے آسانى پيدا فرمائے اور آپ كو خير و بركت سے نوازے، اور اس كا نعم البدل عطا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب