کیا فريضہ حج کی ادائيگي مقدم ہوگي یا والد کے قرض کی ادائيگي کرنا جس کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے ؟
فریضہ حج اور والد کے قرض کی ادائيگي میں سے کونسا عمل پہلے کرنا چاہیے
سوال: 3469
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہم نے مندرجہ بالا سوال فضیلۃ الشيخ محمد بن صالح عثيمین رحمہ اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا توان کا جواب تھا :
سب تعریفات اللہ تعالی کے لیے ہی ہیں جوسب جہانوں کا پالنے والا رب ہے ، اوراللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اوران کے صحابہ کرام اورقیامت تک ان کی اتباع وپیروی کرنے والوں پراپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔
اما بعد :
فریضہ حج کومقدم کیا جائے گا اس لیے کہ والد کا قرضہ اتارنا ان کے ذمہ نہيں ، لیکن اگراس کےوالد نے وراثت میں ترکہ چھوڑا ہے اس میں سے قرض کی ادائيگي کرنا واجب ہے ، اوراگر اس نے ترکہ نہيں چھوڑا تواس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے ۔
لیکن بیٹے کوخوش ہوجانا چاہیے کہ جب اس کے والد نے لوگوں سے قرضہ حاصل کیا اوراس کی ادائيگي کا ارادہ بھی تھا تواس کی جانب سے اللہ تعالی ادائيگي کرے گا ، لھذا اللہ تعالی اس کی جانب سے اسے برداشت کرے گا جوقرض دینے والے کوکافی ہوگا ، اس لیے اسے پریشان نہیں ہونا چاہیے اوروہ اپنے ضمیر پربوجھ نہ ڈالے ۔
خلاصہ یہ ہےکہ اس پرفریضہ حج کی ادائيگي کرنا واجب ہے ، اس لیے کہ اس میں حج کرنے کی استطاعت اورطاقت پیدا ہوچکی ہے ۔ .
ماخذ:
الشيخ محمد بن صالح العثيمين