0 / 0

حج کےمطلوبہ آثارومقاصد

سوال: 34778

میں نے بیت اللہ جانے والے حجاج کرام کا ٹیلی ویژن پرمشاھدہ کیا تومیرے اندرغم پریشانی متحرک ہوئي اوراس عظیم اجتماع کودیکھتے ہوئے آنسوبہنے لگے ۔۔ کاش میں بھی ان کےساتھ ہوتا اوربہت بڑي کامیابی حاصل کرتا ۔۔
جناب والا میرا سوال یہ ہے کہ : کیا مسلمان اوراہل اسلام پراس اجتماع کے کچھ اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں ؟ اوربیت اللہ کی طرف جانے والی حاجی سے کیا چيز مطلوب ہے اوراسے کیا یاد کرنا چاہیے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

ہم آپ کے اس اہتمام اورسوال کرنے پربہت شکر گزار ہيں ، اوراللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ حج کرنےوالے شخص کے گناہ معاف فرمائے ، اورجس نے حج نہیں کیا اسے مرغوب چيزکا حصول ہواورغلط اورڈراؤنی چيز سے نجات ملے ۔۔ آمین ۔۔ آمین ۔

حج کے مقاصد بہت ہی عظيم ہیں اوراس کے اھداف بہت ہی قیمتی ہیں جن میں سے چندایک آپ کے لیے ذيل میں پیش کیے جاتے ہیں :

1 – ابراھیم علیہ السلام سے لیکر ہمارے نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک انبیاء کے ساتھ ربط اورتعلق اورحاجی کامکہ مکرمہ کی حرمت کی تعظيم کرنا ، جب حاجی مشاعرمقدسہ میں حج کے اعمال ادا کرنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جارہا ہوتا ہے تویہ یاد کرتا ہے کہ ان پاکیزہ علاقوں میں مطہرین انبیاء کرام بھی آیا جایا کرتے تھے ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ : ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اورمدینہ کے مابین چلے اورایک وادی میں سے گزرے تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

یہ وادی کونسی ہے ؟ توصحابہ کرام نے جواب دیا وادی ازرق ہے ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

گویا کہ میں اللہ تعالی کےرسول موسی علیہ السلام کودیکھ رہا ہوں ۔۔۔ انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں رکھی ہوئي ہيں اوراونچي آواز سے اللہ تعالی کےلیے تلبیہ کہتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہيں ۔

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ پھر چل پڑے اورایک گھاٹی پر پہنچے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ گھاٹی کونسی ہے ؟ تولوگوں نے جواب دیا ھرشی یا لفت ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : گویا کہ میں یونس علیہ السلام کودیکھ رہاہوں وہ اپنی سرخ اونٹنی پرسوار ہیں اورانہوں نے اونی جبہ زیب تن کررکھا ہے اوران کی اونٹنی کی لگام نرم چھال کی ہے اس وادی سے تلبیہ کہتے ہوئے گزرہے ہيں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 214 ) ۔

2 – لباس کی سفیدی اورصفائي باطنی طہارت اوردل کی صفائي اوررسالت اورمنھج کی سفیدی کی طرف اشارہ ہے ، اوراس میں زينت کوختم کرنا اورمسکنت فقیری کا اظہار اورموت کی یاد دھانی ہے کہ جب کفن کے مشابہ دوکپڑوں میں احرام باندھا جاتا ہے توایسا محسوس ہوتا ہےکہ لگتا ہے کہ اللہ تعالی کے پاس جانے کی تیاری میں ہے ۔

3 – میقات سےاحرام باندھنا اللہ تعالی کی غلامی اورعبادت اوراس کی اطاعت وفرمانبرداری اوراس کی شریعت اورحکم کے آگے سرتسلیم خم کرنا ہے ، تواس طرح میقات سے احرام کے بغیر کوئي بھی تجاوز نہيں کرتا کیونکہ یہ اللہ تعالی کا حکم اورشرع ہے جواللہ تعالی نے مشروع کیا ہے ، اوراس میں وحدت امت اوراس کا نظم وضبط پایا جاتا ہے کہ میقات کی تحدید میں تفرقہ اوراختلاف نہ پایا جائے ۔

4 – حج پہلے لحظہ سے ہی توحید کی علامت اورشعارہے جسے حاجی اختیار کرلیتا ہے ۔

جابربن عبداللہ رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہتےہیں :

پھرتوحید کا اعلان کرتے ہوئے تلبیہ اس طرح کہا :

لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك

حاضر ہوں اے اللہ میں حاضرہوں ، تیرا کوئي شریک نہيں ، یقینا تعریفات تیری ہی ہیں اورنعمت اوربادشاہی بھی تیرے ہی لیے ، تیرا کوئي شریک نہيں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2137 ) ۔

آپ اس کی مزید تفصیل دیکھنے کے لیے سوال نمبر ( 21617 ) کے جواب کا مطالعہ ضرورکریں ۔

5 – آخرت کی یاد دھانی کہ جب لوگ ایک جگہ یعنی میدان عرفات وغیرہ میں جمع ہوتے ہیں توکسی میں بھی فضیلت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس جگہ سب برابر ہوتےہیں اورکسی کوبھی کسی پرفضلیت نہيں رہتی ۔

6 – حج وحدت واجتماعیت کاشعاراورعلامت ہے جس میں سب لوگوں کا لباس بھی ایک جیسا اوران کےاعمال اورعلامات وشعائر بھی ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں اوران کا قبلہ اورجگہیں بھی ایک ، لھذا کسی کوبھی کسی ایک پرفضلیت نہیں رہتی بادشاہ اوررعایا ، غنی اورفقیر سب ایک ہی پلڑے میں ہوتے ہيں ۔

حقوق اورواجبات میں سب لوگ برابر ہیں اوران کے مابین اس حرمت والے گھرمیں کوئي فرق نہیں ان کےرنگوں اورشہریت میں کوئي فرق نہيں رہتا اورنہ ہی کسی کےلیے ان کے مابین فرق کرنا جائز ہے ۔

مشاعرمیں ایک جیسے ۔۔ شعا‏ئروعلامات میں ایک جیسے ، ان سب کے اھداف بھی ایک اورکام بھی ایک ہی طرح کے ۔

قول میں بھی ایک ہیں: سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اورآدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے ، کسی عربی کوکسی عجمی پراورنہ ہی کسی گورے کوسیاہ پرفضلیت حاصل ہے ، لیکن تقوی وپرہیزگاری میں ۔

دوملین سے بھی زيادہ مسلمان ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ ایک ہی لباس میں کھڑے ہوتے ہیں ان سب کا ھدف بھی ایک اورایک ہی مقصد ہوتا ہے وہ اپنے رب کوپکاررہے ہوتے ہیں اوراپنے ایک ہی نبی کی اتباع وفرمانبرداری کرتے ہیں ، تواس سے بڑھ کروحت واجتماعیت کیا ہوگي ؟

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

جن لوگوں نے کفر کیا اوراللہ تعالی کی راہ اورمسجد حرام سے روکنے لگے جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے مساوی کردیا ہے وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے جوبھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائيں گے الحج ( 25 ) ۔

7 – لباس اوررہائش میں قناعت اختیارکرنے کادرس اورتربیت کہ حاجی نےکپڑے کے دوٹکڑے زيب تن کیے ہوتے ہیں اورتقریبا سونے کی جگہ پرہی رہائش اختیارکی ہوتی ہے جواسے کافی رہتی ہے ۔

8 – مسلمانوں کے اس عظيم اجتماع سے کفاراورگمراہ لوگوں کا ڈرنااورخوفزدہ ہونا ، اگرچہ وہ کئي جگہوں اورملکوں میں بس رہے ہيں اورمختلف ہیں اس اختلاف کے باوجود صرف ان کا ایک ہی جگہ اورایک ہی وقت جمع ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس کے علاوہ کہیں اوربھی جمع ہوسکتے ہیں ۔

9 – مسلمان کے مابین اجتماعیت اورالفت کی اہمیت اجاگرکرنا ، آپ دیکھتے ہیں کہ ہرایک مسلمان نے علیحدہ علیحدہ سفر کیا اورکسی دوردراز علاقے سے آيا لیکن حج میں اسے آپ ایک گروپ اورمجموعہ میں دیھکیں گے ۔

10 – باوثوق ذرائع سے مسلمانوں کے حالات وواقعات کا تعارف ہونا ، وہ اس طرح کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسملمان بھائي سے بلاواسطہ اس کے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے حالات سے واقف ہوتا ہے ۔

11 – عام مسلمانوں کے مابین تجربات اورنفع والی اشیاء کا تبادلہ ۔

12 – اہل علم اورحل وعقد کا سب ممالک سے آکر ایک جگہ اکٹھے ہونا اورمسلمانوں کے حالات واقعات اوران کی ضروریات پرغورفکر کرنا اوران کے تعاون کی اہمیت کا اظہار ۔

13 – مشاعرمقدسہ میں وقوف سے اللہ تعالی کی عبادت کا ثبوت کہ جب روئے زمین پرسب سے افضل اوراعلی ترین مقام بیت اللہ کوچھوڑ کر میدان عرفات میں وقوف کرنا یہ صرف اس کی عبادت کے لیے ہی ہے ۔

14 – گناہوں کی بخشش : کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جوبھی حج میں فسق وفجور اورغلط باتیں نہ کرے تووہ حج سے اس طرح واپس آتا ہے کہ اسے آج ہی اس کی ماں نے جنم دیا ہو ) ۔

15 – گنہگاروں کے لیے امید کا دروازہ کھولنا اوران مشاعر مقدسہ میں معصیت وگناہ کوچھوڑنے پران کی تربیت کرنا ، وہ اس طرح کہ دوران حج اورمشاعرہ مقدسہ میں وہ اپنی بہت ساری غلط عادات سے چھٹکارا حاصل کرلیتے ہيں ۔

16 – یہ بیان کرنا کہ دین اسلام نظم وضبط والا دین اوراس میں کوئي بھی چيز نظم کے بغیر نہیں پائي جاتی ، کہ حج کے سارے احکامات اورمناسک اوروقت میں نظم پایا جاتا ہے اورہرایک عمل اورکام اپنی جگہ اوراس کے محدود وقت میں کیاجاتا ہے ۔

17 – خیروبھلائي کے کاموں میں خرچ کرنے کی ترتیب نفس ، اوراس کے ساتھ ساتھ بخل اورحسد سے دوری اختیارکرنے کی تربیت ، کیونکہ حاجی اپنے حج کے لیے بہت ساری رقم سواری پر اوراپنے راستے میں اورمشاعرمقدسہ میں خرچ کرتا ہے ۔

18 – اللہ تعالی کی نشانیوں اورشعائر کی تعظیم کرنے کے ساتھ دلوں میں تقوی وپرہیزگاری پیدا کرنا اور دلوں کی اصلاح کرنا ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورجوکوئي بھی اللہ تعالی کی نشانیوں اورشعائر کی تعظیم کرتا ہے یہ دلوں میں تقوی وپرہیزگاری کی وجہ سے ہے ۔

19 – غنی اورمالدارلوگوں کی لباس اوررہائش میں امتیاز ترک کرنے میں تربیت اورانہيں لباس اورمشاعر مقدسہ اورطواف اورسعی اوررمی جمرات میں فقراء مساکین کے مابین برابری ، اوران سب اشیاء میں ان کی تواضع وانکساری میں تربیت پائي جاتی ہے اوراس سے دنیا کی حقارت کی معرفت ہوتی ہے ۔

20 – حاجی کاایام حج میں اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری پرہمیشگی کرنا کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ اورایک عمل سے دوسرا عمل کرتا ہوا اللہ کی اطاعت کررہا ہے اوریہ سب کچھ ایک سالانہ دورے کی حیثيت رکھتا ہے جواللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری اوراللہ تعالی کے ذکر کا دورہ کہلاتاہے ۔

21 – لوگوں کے ساتھ احسان کرنے کی تربیت نفس ہوتی ہے ، لھذا راہ بھولنے والے شخص کی راہنمائي کی جاتی ہے اورجاہل کوعلم سکھایا جاتا ہے ، اورفقیر مسکین کی مدد وتعاون کیا جاتا ہے ، اورعاجز اورکمزور کے ساتھ مل کرکھڑا ہوا جاتا اوراس سے تعاون کیاجاتا ہے ۔

22 – اخلاق حسنہ سے مزین ہوا جاتا ہے ، حج میں حلم وبردباری اورمخلوق کی تکلیف پربرداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے ، کیونکہ حاجی کے لیے ازدھام اورجھگڑا وغیرہ جیسے حادثات کا پیش آنا ایک ضروری چيز ہے اوراسے اس پرصبر کرنا کا حکم دیا گيا ہے :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

حج کے مہینے مقرر ہیں لھذا جوبھی ان میں حج کوفرض کرلے تووہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے اورلڑائی جھگڑا کرنے سے بچتا رہے

23 – صبر اورمشقت برداشت کرنے کی تربیت مثلا گرمی برداشت کرنا اورطویل اورلمبا سفر ، اوراپنے اہل وعیال سے دوری اورسخت ازدھام میں مشاعرمقدسہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ۔

24 – پہلی غلط قسم کی عادات اوررسم ورواج ختم کرنے کی تربیت ، وہ اس طرح کہ حاجی کواحرام کی حالت میں اپنا سرننگا رکھنے کا حکم ہے اوروہ لباس نہيں پہن سکتا تواس طرح اسے وہ کچھ ترک کرنا ہوگا جواس کی عادت بن چکی تھی اوراسی طرح کھانے پینے اوررہائش میں بھی اسے بہت کچھ ترک کرنا ہوگا ۔

25 – صفا مروہ کے مابین سعی کرنے میں اس بات کی یاددھانی ہے کہ جو بھی اللہ تعالی کی اطاعت کرے اوراس پرتوکل کرے اوراس کے دین کا التزام کرے تووہ اسے ضائع نہیں کرے گا بلکہ اس کے درجات بلند کرتا ہے ، دیکھیں یہ ام اسماعیل ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ ھاجررضي اللہ تعالی عنہا ہیں انہوں نے جب ابراہیم علیہ السلام کویہ کہا کہ کیا آپ کواللہ تعالی نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ؟ توانہوں نے جواب میں کہا جی ہاں ، ھاجرکہنے لگيں پھراللہ تعالی ہمیں ضائع نہيں کرے گا ۔

26 – اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہ ہونے کی تربیت نفس : کہ جتنی بھی سختی اورشدید مشکلات کا سامنا ہواللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہيں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی ہی ان مشکلات سے نکالنےوالا اوراس کے ہاتھ میں ہی آسانی پیدا کرنا ہے ، دیکھیں یہ ام اسماعیل رضي اللہ تعالی ہیں ان کا بچہ ہلاک ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے اوروہ اس مشکل سے نکلنے اورآسانی کوتلاش کرنے کےلیے ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑي پربھاگ رہیں ہیں ، توپھراس مشکل سے نجات بھی ایسے آئي کہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا ۔

جب ایک فرشتہ آیا اورزمین پرپاؤں مارکرزمزم کا چشمہ نکالا جس میں دلوں اورجسموں کی بیماریوں کا علاج ہے ۔

27 – ان مشاعرمقدسہ میں حاجی اللہ تعالی کی میزبانی سے شرفیاب ہوتے اوراسے یاد کرتے ہیں ، کیونکہ یہ اجتماع نہ توکسی حکومت اورنہ ہی کسی کمیٹی اورکسی بادشاہ اورصدر کی دعوت پربلایا گيا ہے بلکہ اس کی دعوت تواللہ رب العالمین نے دی ہے ، اوراسے ایسااجتماع اورمقام بنایا ہے کہ جس میں سب مسلمان ایک دوسرے کوبرابری اورمساوات سے ملتے ہیں، جس میں کسی ایک کوبھی کسی دوسرے پرفضیلت نہیں ہوتی ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورلوگوں میں حج کا اعلان کردو ، لوگ تیرے پاس پاپیادہ بھی آئيں گے اوردبلے پتلے اونٹوں پر بھی دوردراز کی تمام راہوں سے آئيں گے الحج ( 27 )۔

امام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( مسافروں میں سے اللہ تعالی کی طرف جانے والے تین قسم کے لوگ ہيں ، غازي ، حاجی اورعمرہ کرنے والا ) دیکھیں سنن نسائي حدیث نمبر ( 2578 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح سنن نسائي ( 2462 ) میں صحیح قرار دیا ہے ۔

28 – مومنوں سے دوستی اورمحبت : اوریہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل فرمان کے عین مطابق ہے :

( بیشک تمہارا خون اورتمہاری عزتیں اورتمہارے مال ودولت تم پراس حرمت والے دن اوراس حرمت والے مہینہ اوراس حرمت والے شہرکی طرح حرام ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 65 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3180 ) ۔

29 – موسم حج میں مکمل طور پرمشرکوں اورکفار سے علیحدگی ہوتی ہے اورانہيں کسی بھی طریقہ سے اس اجتماع میں حاضر ہونےسے منع کیا گیا ہے ، اوراس کےساتھ ساتھ حرم کی حدود میں بھی ان کا داخلہ ہروقت اورکسی بھی مقصد کے لیے ممنوع ہے اورانہيں داخل ہونے کی اجازت نہيں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ناپاک اورنجس ہيں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائيں ، اگرتمہیں مفلسی اورغریب ہونے کا خدشہ ہے تواللہ تعالی اگرچاہے توتمہیں اپنے فضل سے دولتمند کردے گا ، بیشک اللہ تعالی علم والا اورحکمت والا ہے التوبۃ ( 28 ) ۔

اورامام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی بیان کرتےہيں کہ مجھے ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نے اس حج میں مجھے بھی ان اعلان کرنے والوں میں بھیجا جو یوم النحر( یعنی دس ذوالحجہ ) کومنی میں یہ اعلان کررہے تھے :

اس سال کے بعد کوئي بھی مشرک حج نہ کرے اورنہ ہی ننگے ہوکر بیت اللہ کا طواف کرے ۔

اللہ تعالی ہی زيادہ علم رکھنے والا ہے ، اوراللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اورصحابہ کرام پراپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔ .

ماخذ

ڈاکٹر یحیی بن ابراھیم الیحیی - شیخ یحیی الیحیی کی ویپ سائٹ سے لیا گیا ہے ۔

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android