میری عمر 20 سال ہے اور میں دین کا علم پڑھ رہی ہوں، میں حافظہ قرآن بھی ہوں، مجھے دو سال ہو گئے ہیں ریاض سے کرک شہر منتقل ہو گئی ہوں، مجھے یہاں لوگوں میں بہت زیادہ جہالت نظر آتی ہے اور لوگ شرعی احکامات پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے مجھے بہت دکھ ہوتا ہے اور میں نے تنہا رہنا شروع کر دیا ہے، اور اب میری ساری توجہ دینی علوم پر ہے، میری ریاض شہر کی بہت سی استانیاں اور سہیلیاں میرے الگ تھلگ رہنے پر مجھے سخت سست کہتی ہیں، وہ مجھے کہتی ہیں کہ میں لوگوں میں گھل مل کر انہیں تعلیم دوں، ان کا کہنا ہے کہ میرے اندر اتنی صلاحیت موجود ہے اور میں دوسروں کو قائل کرنا جانتی ہوں، لیکن مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میں چھوٹا منہ بڑی بات کی مرتکب نہ ہو جاؤں، پھر کوئی مجھے مشورہ دینے والا اور سمجھانے والا بھی نہیں ہے کہ اگر -اللہ نہ کرے -مجھ سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو وہ مجھے متنبہ کر دے، نیز مجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ معاشرہ مجھ پر اثر انداز ہو جائے گا اور میں خود ثابت قدم نہ رہ سکوں، مجھے بہت زیادہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں شیطان مجھے بہکا نہ دے اور مجھے خود پسندی اور ریاکاری میں مبتلا نہ کر دے، میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے مشورہ دیں۔
ایک لڑکی پریشان ہے کہ علم حاصل کرے یا اور دوسروں کو تعلیم دے ، اسے کیا کرنا چاہیے؟
سوال: 349464
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
محترمہ بہن!
جب بھی کسی مسلمان کو اللہ تعالی کی دی ہوئی تعلیمات دوسروں کو سکھانے اور رہنمائی دینے کا موقع ملے تو اسے منفی خیالات کی وجہ سے ضائع نہیں کرنا چاہیے، انسان ان منفی خیالات کے سامنے ڈھیر ہو کر خیر کا کام مت چھوڑے، لہذا یہ بات اپنے دل میں نہ لائے کہ تعلیم و تربیت ایک بڑی سماجی ذمہ داری ہے کہیں یہ ذمہ داری اسے فتنے میں نہ ڈال دے، نہ ہی یہ سوچے کہ دینی تعلیم کا معاملہ خاصا حساس ہوتا ہے اس لیے غلطی کرنے پر نتائج برے ہوں گے، بلکہ یہ سمجھے کہ لوگوں کو اچھی باتیں سکھانا اسلامی ذمہ داری ہے، اور شرعی طور پر مطلوب ہے، اس لیے اہل علم لازمی طور پر دوسروں کو سکھائیں۔
دوسروں کو دینی علم کی تعلیم دینا شرعی ذمہ داریوں میں شامل ہے جو کہ ہر مسلمان اپنی طاقت کے مطابق ادا کرتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی ہر نفس کو اس کی استطاعت کے مطابق مکلف بناتا ہے، لہذا مسلمان دوسروں کو وہ تمام باتیں بتلائے جو خود جانتا ہے اور جس بات کو نہیں جاتا اس کے بارے میں کہہ دے: اللہ بہتر جانتا ہے۔
چنانچہ حافظ قرآن شخص دوسروں کو قرآن کریم یاد کروائے، اسی طرح جو شخص ابھی مکمل طور پر تمام فقہی ابواب کی تعلیم مکمل نہیں کر پایا بلکہ ابھی صرف عبادات کے ابواب مکمل کیے ہیں تو وہ شخص صرف عبادات کے مسائل دوسروں کو سکھائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام اسی طرح کیا کرتے تھے۔
جیسے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میری طرف سے حاصل کردہ علم آگے پہنچاؤ، چاہے ایک آیت ہی ہو، اور بنی اسرائیل سے روایت بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے) بخاری: (3461)
اسی طرح مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اپنی قوم کے ایک وفد میں آیا تو ہم نے آپ کے پاس 20 راتیں قیام کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے ساتھ بہت ہی مہربانی اور نرمی والا برتاؤ کیا، تو جس وقت آپ نے ہمیں دیکھا کہ ہم اپنے گھر والوں کو یاد کرنے لگے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اب تم واپس چلے جاؤ اور اپنے اہل خانہ میں رہو اور انہیں دین سکھاؤ، اور نمازوں کی پابندی کرو؛ چنانچہ جس وقت نماز حاضر ہو جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان کہہ دے اور تم میں سب سے بڑا شخص جماعت کروائے۔)"
اس حدیث کو امام بخاری: (628) اور مسلم : (674)نے روایت کیا ہے۔
دوسروں کی دینی تعلیم دینا خیر کا بہت ہی بڑا ذریعہ ہے، لہذا اگر کسی طالب علم کے لیے خیر کا دروازہ ابھی کھل رہا ہو تو اسے کل تک کے لیے مؤخر مت کرے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ کل کوئی رکاوٹ کھڑی ہو جائے اور لوگوں کو خیر سکھانے کے عوض میں حاصل ہونے والے اللہ تعالی کے عظیم اور دائمی اجر و ثواب والے وعدوں کو حاصل نہ کر پائے۔
جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی ہدایت کی دعوت دے تو اس کے لیے بھی اتنا ہی اجر ہو گا جتنا اس کی پیروی کرنے والوں کے لیے اجر ہو گا، نیز کسی کا اجر بھی ان کے اجر کی وجہ سے کم نہیں کیا جائے گا۔) مسلم: (2674)
ایسے ہی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس وقت انسان فوت ہو جائے تو تین چیزوں کے علاوہ اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں: صدقہ جاریہ، علم نافع جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، یا نیک اولاد جو میت کے لیے دعا کرے۔) مسلم: (1631)
الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حصول علم کے دوران دونوں چیزوں کو جمع کرنا چاہیے، علم بھی حاصل کرے اور لوگوں کو اس کی دعوت بھی دے۔ خود بھی عمل کرے اور لوگوں کی اصلاح کرتے ہوئے انہیں وعظ و نصیحت کرے، کسی جگہ بھی مت رکے ، تاہم وعظ و نصیحت اپنی استطاعت کے مطابق جاری رکھے، نیز اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے قطعاً غافل نہ ہو؛ کیونکہ یہ شخص ابھی علم حاصل کر رہا ہے اور اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے والا بھی ہے، واعظ اور معلم بھی ہے، لوگوں کی اصلاح کرنے کے نتائج بہت ہی اچھے برآمد ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کسی بھی شریعہ کالج میں دین کا علم حاصل کر رہا ہے، یا براہ راست اہل علم کے دروس اور مجالس میں بیٹھ کر علم حاصل کر رہا ہے تو اس کی نظریں بہت ہی بلند اہداف پر ہونی چاہییں، صرف محدود اہداف پر ہی توجہ نہ دے بلکہ اپنی علمی استعداد اور قدرت کے مطابق ہر ممکن بھلائی کے کام میں اپنا حصہ ڈالے، چنانچہ اصلاح کرنے والوں کے ساتھ بھی رہے، واعظین ، معلمین کا تعاون بھی کرے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کی یہی روش تھی کہ وہ لوگ لوگوں کے فائدے کی ہر چیز میں اپنی خدمات پیش کرتے تھے، اور کسی بھی ایسے کام سے ذرا پیچھے نہیں رہتے تھے جس میں لوگوں کا فائدہ ہو۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ومقالات الشيخ عبد العزيز بن باز" (24 / 24)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب