میں اور میری بہن اپنی والدہ کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، میرے والد صاحب فوت ہو چکے ہیں، میرے دو شادی شدہ بھائی ہیں وہ کرائے پر اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں، ان کی ملازمت بھی ہے، اور اسی طرح میری 4 شادی شدہ بہنیں بھی ہیں، ہماری ماہانہ آمدن 8 ہزار ہے جو کہ کرائے کی مد میں وصول کرتے ہیں، اس کرائے کے ذریعے ہم اپنے والد کا قرض بھی اتار رہے ہیں، ہم نے قرض کے ختم ہونے تک وراثت تقسیم نہ کرنے کے فیصلہ کیا ہے۔ تو اس صورت میں میرا سوال یہ ہے کہ : کیا میرے شادی شدہ بھائیوں کا اس گھر پر کوئی حق ہے جس میں ہم ماں اور بیٹیاں رہ رہے ہیں؟ کیونکہ میرے بھائیوں کا کہنا ہے کہ یہ گھر تو ان کے والد کا ہے اور ان کا بھی اس گھر میں حق ہے، اس لیے وہ کسی بھی وقت آ کر مکمل آزادی سے رہتے ہیں میرا یا میری بہن کسی کا کچھ بھی خیال نہیں کرتے ، گویا کہ میری اور میری والدہ یا بہن کسی کی بھی کوئی پرائیویسی نہیں ہے! واضح رہے کہ والد محترم نے میرے بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی؛ کیونکہ میرے والد صاحب نے ان کے گھر کا سامان خریدا، اور گاڑیاں ایسے وقت میں خرید کر دیں جب میرے میری بہن اور والدہ کسی کے پاس گاڑی نہیں تھی کہ ہم اپنی ضروریات پوری کر سکیں، اس لیے جب بھی ہمیں گھر سے باہر اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جانا پڑتا تو لازمی طور پر ان سے اجازت لے کر جاتے ہیں، اور وہ بھی جب ان کو فرصت ملے۔ یعنی انہیں تو اپنے گھروں میں اپنی پرائیویسی مکمل طور پر حاصل ہے، لیکن ہمیں اپنے گھر میں کوئی پرائیویسی حاصل نہیں ہے، اس لیے ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ اس معاملے کو حل فرما دیں۔
ایک لڑکی اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ رہتی ہے، تو کیا اس کے بھائی کسی بھی وقت گھر میں اس حجت کی بنا پر داخل ہو سکتے ہیں کہ گھر تو ہمارے فوت شدہ والد کا ہے ۔
سوال: 350624
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
انسان جس وقت فوت ہو جائے تو اس کی زیر ملکیت تمام چیزیں وارثوں کی جانب منتقل ہو جاتی ہیں، چنانچہ اگر تمام ورثا ترکہ تقسیم نہ کرنے پر متفق ہوں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، تاہم جب تک ترکہ تقسیم نہیں ہوتا سب کے سب مشترکہ طور پر اس چیز کے مالک ہوں گے۔
دوم:
جس گھر میں آپ رہ رہے ہیں وہ کرائے کا مکان ہے تو اس میں آپ کے بھائیوں کا کوئی حق نہیں ہے، تاہم اس گھر میں موجود ساز و سامان اگر آپ کے والد کی ملکیت تھا تو ایسی صورت میں آپ کے بھائی اس کی ملکیت میں شریک ہیں اب یا تو وہ سامان آپ کو دے دیں، یا اسے بطور وراثت تقسیم کر لیا جائے، یا اس سامان کی قیمت لگا کر ہر وارث کو اس کا حصہ بتلا دیا جائے، اب سامان آپ خرید کر بھائیوں کو ان کا حصہ دے دیں، یا سامان مشترکہ ملکیت میں باقی رہے۔
اور اگر مشترکہ ملکیت کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں جیسے کہ آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے مشترکہ ملکیت کی وجہ سے ہی آپ کے ذاتی معاملات کا خیال نہیں رکھا جاتا ، تو ہم یہی مشورہ دیں گے کہ گھریلو سامان کی مشترکہ ملکیت ختم کر دیں، چاہے تقسیم کریں، یا بھائی اگر سامان آپ کو نہیں دیتے تو اس کی قیمت لگوا کر انہیں ان کا حصہ دے دیا جائے ۔
سوم:
اگر فرض کریں کہ گھریلو سامان کی مشترکہ ملکیت جاری رہے بلکہ کوئی بھائی اسی گھر میں رہائش پذیر ہو تو پھر بھی والدہ اور بہنوں کے کمرے میں اجازت کے ساتھ ہی داخل ہو گا۔
جیسے کہ موطا امام مالک کے اجازت لینے کے باب میں ہے کہ عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال پوچھا: اللہ کے رسول میں والدہ کے کمرے میں جانے سے پہلے اجازت لوں؟ آپ نے فرمایا: (جی ہاں)
تو اس آدمی نے کہا: میں اپنی والدہ کے ساتھ اسی گھر میں رہتا ہوں۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم پھر بھی ان سے اجازت لے کر کمرے میں جاؤ)
تو اس آدمی نے کہا: میں اپنی والدہ کی خدمت بھی کرتا ہوں۔
آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم پھر بھی والدہ سے اجازت لے کر ان کے کمرے میں جاؤ؛ کیا تم انہیں بے پردگی میں دیکھنا چاہتے ہو؟)
تو اس آدمی نے کہا: نہیں ۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تو پھر اجازت لے کر جاؤ)۔
اور جس سے اجازت لی جائے اسے اختیار ہوتا ہے کہ اندر آنے کی اجازت دے یا نہ دے۔
جیسے کہ الموسوعة الفقهية (3/ 146) میں ہے کہ:
"اگر گھر میں مرد کی کوئی قریبی رشتہ دار جیسے کہ والدہ ، یا بہن وغیرہ ہوں کہ جنہیں برہنہ حالت میں دیکھنا درست نہ ہو چاہے کوئی مرد ہو یا عورت تو احناف اور مالکی فقہائے کرام کے ہاں ایسے شخص کے لیے ان کے کمرے میں بغیر اجازت کے داخل ہونا درست نہیں ہے۔ ان فقہائے کرام کے ہاں ایسی حالت میں اجازت لے کر جانا واجب ہے، بغیر اجازت کے جانا جائز ہی نہیں ، بلکہ مالکی فقہائے کرام نے تو یہاں تک کہا ہے کہ: جو شخص بھی اجازت لینے کو واجب نہیں سمجھتا بلکہ سرے سے انکار کرتا ہے تو وہ شخص کافر ہے، کیونکہ یہ تو دین کی بنیادی ترین اور مسلمہ امور میں شامل ہے۔
اجازت لے کر جانا قرآن ، حدیث ، صحابہ کرام کے آثار اور شرعی اصولوں کی رو سے واجب ہے:
جیسے کہ قرآن کریم میں ہے کہ:
وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا
ترجمہ: اور جب تمہارے بچے بالغ ہو جائیں تو وہ بھی [داخل ہونے کے لیے] اجازت لیں۔[النور: 59]
اور حدیث مبارکہ میں سے دلیل امام مالک رحمہ اللہ نے عطاء بن یسار سے بیان کی ہے ۔۔۔ [یہ مکمل روایت پہلے گزر چکی ہے۔ مترجم]
جبکہ اس حوالے سے آثار صحابہ کی تعداد بھی کافی ہے، ہم ان میں سے چند ذکر کرتے ہیں :
طبرانی رحمہ اللہ نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ذکر کیا ہے کہ: "تم اپنی بہنوں اور ماؤں کے پاس جانے سے پہلے اجازت لیا کرو"
اسی طرح علامہ ابو بکر جصاص نے عطا سے بیان کیا کہ وہ کہتے ہیں میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا میں اپنی بہن کے پاس اجازت لے کر جاؤں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں بالکل۔ میں نے کہا: وہ میرے گھر میں رہتی ہے اور میں ہی اس کی کفالت کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: پھر بھی اجازت لیکر جاؤ۔
ایسے ہی علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ: ان سے ایک آدمی نے پوچھا: کیا میں اپنی بہن کے کمرے میں جانے کے لیے اجازت لوں؟ تو انہوں نے کہا: اگر تم اجازت لے کر نہیں جاؤ گے تو تمہیں ناگوار کیفیت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اور اگر وہ گھر اس کا ہے ہی نہیں تو اس گھر میں داخل ہونے کے لیے اس پر اجازت لینا زیادہ لازم ہے، سب علمائے کرام کے متفقہ موقف کے مطابق اس کے لیے اجازت سے قبل داخل ہونا جائز نہیں ہے، چاہے گھر کا دروازہ کھلا ہو یا بند ہو، اور چاہے وہ خود اس گھر میں رہائش پذیر ہو یا نہ ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ [النور: 27]
اور ویسے بھی گھروں کا شریعت میں خاص احترام ہے، اس احترام کو پامال کرنا جائز نہیں ہے، نیز گھروں میں داخل ہونے کی اجازت محض لوگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے مال و دولت کی حفاظت کے لیے بھی ہے؛ کیونکہ جس طرح انسان اپنے گھر کو ذاتی تحفظ کے لیے بناتا ہے بالکل اسی طرح اپنی دولت کو محفوظ بنانے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے، تو جس طرح انسان اپنے جسم کی نمائش اچھی نہیں سمجھتا، بالکل اسی طرح انسان اپنی دولت کی نمائش بھی اچھی نہیں سمجھتا۔" ختم شد
خلاصہ یہ ہے کہ:
جس گھر میں آپ رہائش پذیر ہیں اس گھر میں آپ کے بھائیوں کے لیے آپ کی پرائیویسی کو پامال کرنا جائز نہیں ہے، چاہے وہ اس گھر کی ملکیت میں شریک ہیں یا نہیں؛ بلکہ ان پر واجب ہے کہ آپ کی پرائیویسی کا خیال کریں، آپ اور آپ کے گھر میں رہائش پذیر افراد کے آرام کے اوقات کا مکمل خیال رکھیں، اس میں ذرا بھی کمی نہ آنے دیں؛ بالخصوص اس صورت میں کہ جب ان کے اپنے الگ گھر ہیں اور وہ وہیں پر قیام پذیر بھی ہیں تو ایسی صورت میں ان کے لیے یہ بالکل روا نہیں ہے کہ آپ کی رہائش پر آ کر آپ کو تنگ کریں، اور آپ کی ذکر کردہ کیفیت میں آپ کو پریشان کریں۔
لہذا اگر ترکہ تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے یا گھریلو سامان کی مشترکہ ملکیت کی وجہ سے یہ مسائل جنم لے رہے ہیں تو پھر ہم یہی نصیحت کریں گے کہ آپ ترکہ تقسیم کر دیں، اور ان کے لیے کسی بھی قسم کی حجت باقی نہ رہنے دیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (307722) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب