ہم اساتذہ کا ایک گروپ ہے جو کہ ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں، یہی ادارہ ہمارا ذریعہ آمدن ہے، چونکہ آپ کو بھی علم ہے کہ آج کل تعلیمی سرگرمیاں جدید الیکٹرانک سسٹم پر منتقل ہو گئی ہیں، اب ذمیہ کام اور امتحانات بھی آن لائن ہی ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے طلبہ خود ہی اپنا ذمیہ کام کرتے ہیں، جبکہ امتحانات کا وقت مقرر ہوتا ہے ۔ پہلے ہم ذمیہ کام حل کیا کرتے تھے اور اسی طرح ٹیسٹ بھی حل کر دیتے تھے، رپورٹیں بھی بنا کر دیا کرتے تھے؛ کیونکہ ان دونوں میں صرف یہی ذریعہ آمدن ہے۔ تو ہم نے سنا ہے کہ اس انداز سے اسائنمنٹ اور ٹیسٹ حل کر کے دینا حرام ہے، تو ہم نے یہ کام کرنا چھوڑ دیا، پھر ہمارے ادارے کے مالک نے کسی شیخ سے دریافت کیا تو انہوں نے اس کے جواب میں جواز کا فتوی دیا اور کہا کہ اگر یہ سالانہ امتحان نہیں ہیں تو آپ حل کر سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تو اس کے بعد ادارے کے مالک نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم ماہانہ ٹیسٹ حل کروایا کریں، ذمیہ کام کر کے دیا کریں اور طلبہ کے لیے رپورٹیں بھی بنایا کریں، تو ہمیں اس بارے میں رہنمائی چاہیے۔
طلبہ کی اسائنمنٹ، ذمیہ کام اور رپورٹس تیار کر کے دینے کا حکم
سوال: 351559
جواب کا خلاصہ
طلبہ کی جگہ پر آپ کا تعلیمی ذمیہ کام کر کے دینا ممنوع عمل ہے، بلکہ یہ دھوکا دہی میں شامل ہے جو کہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔
Table Of Contents
امتحانات میں نقل مارنا حرام ہے
امتحانات وغیرہ میں [اپنی محنت کے ساتھ دوسروں کی محنت کی ملاوٹ کرتے ہوئے] نقل مارنا حرام ہے، جیسے کہ صحیح مسلم: (102) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو ملاوٹ کرے تو وہ مجھ سے نہیں)
سالانہ امتحانات کو حل کروانا یا حل کروانے میں مدد پیش کرنا ملک کو دھوکا دہی کے مترادف ہے؛ کیونکہ یہاں ایسا طالب علم بھی تعلیمی سند حاصل کر لے گا جو اس کا اہل نہیں ہے؛ بلکہ یہ تو پورے معاشرے کے ساتھ دھوکا دہی ہے؛ کیونکہ نقل خوری کی وجہ سے طلبہ کی علمی صلاحیت بہت کمزور ہو گی اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا نہیں سکیں گے۔
ماہانہ ٹیسٹ اور ذمیہ کام میں نقل خوری کا حکم
ذمیہ کام ، ماہانہ ٹیسٹ اور کلاس میں لیے جانے والے مختصر ٹیسٹ میں نقل خوری طلبہ کے سرپرستوں اور تعلیمی نگرانی پر مامور افراد کے ساتھ دھوکا ہے؛ کیونکہ یہ ٹیسٹ طلبہ کو فائنل امتحانات کے لیے تیاری کا موقع فراہم کرتے ہیں، اور تمام کتب کو اچھی طرح تیار کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
تو نقل خوری کی صورت میں تعلیم اور ذمیہ کام کے اصل اہداف کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟!
اسی طرح اگر طلبہ نے خود کوئی کام کرنا ہی نہیں ہے تو ان کی تعلیمی اساس اور بنیاد کیسے مضبوط ہو گی؟!
اور اگر ان ماہانہ ٹیسٹوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو پھر تعلیمی نظام میں انہیں شامل کیوں کیا گیا ہے؟!
اس بنا پر آپ کا طلبہ کی جگہ پر تعلیمی ذمیہ کام کر کے دینا ممنوع عمل ہے، بلکہ یہ دھوکا دہی میں شامل ہے جو کہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (95893 ) اور (104812 ) کا مطالعہ لازمی کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات