میں بذریعہ انٹرنیٹ دلالی یعنی مارکیٹنگ کا کام کرتا ہوں، میں جس آفر کی مارکیٹنگ کرتا ہوں اس میں مالک کی طرف سے خریدار کے واسطے کسی مخصوص سروس کے لیے ماہانہ یا سالانہ اشتراک ہوتا ہے، پھر یہ سروس خریدار کی چاہت کے مطابق الگ الگ بھی ہوتی ہے، مثلاً: صرف رکنیت حاصل کی جائے، یا عمومی رکنیت 10 ڈالر کے عوض ، یا سلور رکنیت 20 ڈالر کے عوض ، یا گولڈن رکنیت 30 ڈالر کے عوض ، پھر ویب سائٹ کی جانب سے مجھے (مارکیٹنگ ایجنٹ، یا دلال) کے سامنے آفر پیش کی جاتی ہیں، چنانچہ خریدار کی جانب سے جب بھی خریداری کی جائے گی تو ہمیں خریدار کی جانب سے مقررہ کمیشن موصول ہو گا، چونکہ یہ سروس میرے ذریعے سے خریدار نے حاصل کی تھی تو مجھے کمیشن ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر موصول ہو گا۔ نیز اگر خریدار کسی بھی وقت میں اپنی رکنیت کو اپ گریڈ کرے یا ڈی گریڈ کرے تو میرے کمیشن کی مقدار بھی فوری بدل جائے گی، یہ مقدار کتنی ہو گی ہمیں پہلے ہی معلوم ہوتی ہے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
ڈسکاؤنٹ کارڈ کی مارکیٹنگ کرنے کا کیا حکم ہے؟
سوال: 356116
جواب کا خلاصہ
سوال میں مذکور مارکیٹنگ کی خدمات اگر صارف یا خریدار کی مذکورہ آفر میں رکنیت حاصل کرنے پر ملتی ہیں ، اور ان خدمات کے لیے وہ پہلے کچھ رقم ادا کرتا ہے تا کہ اسے مزید ڈسکاؤنٹ ملے، یا کوئی بھی چیز خریدنے پر خصوصی رعایت دی جائے، یا بائع کی طرف سے پیش کی جانے والی کسی بھی سروس کے حاصل کرنے پر کم قیمت لگائی جائے تو یہ طریقہ کار حرام ہے، چنانچہ اگر طریقہ کار حرام ہے تو اس کی رہنمائی کرنا بھی حرام ہو گا، یا اس کام کے لیے لوگوں کی معاونت بھی حرام ہو گی، مزید کے لیے تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیں۔
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مارکیٹنگ کے اصول و ضوابط
سائل نے اپنے سوال میں گاہک کے ماہانہ اشتراک کی ماہیت واضح نہیں کی کہ کیا یہ ڈسکاؤنٹ کارڈ ہے یا کچھ اور ہے، نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ جب وہ خود مارکیٹنگ کرتا ہے تو یہ بھی کوئی رقم ادا کرتا ہے یا نہیں؟ اس لیے سوال میں مذکور صورت کا حکم واضح کرنا ممکن نہیں ہے، تاہم دو چیزوں کی جانب ہم توجہ مبذول کروائیں گے ، امید ہے کہ ان سے سائل کو فائدہ ہو گا:
پہلی چیز: اگر مارکیٹنگ شروع کرنے کے لیے کسی بھی ویب سائٹ پر پہلے اشتراک کی فیس (Subscription fee) یا ٹریننگ فیس، یا اکاؤنٹ کھولنے کی فیس، یا کسی بھی نام سے رقم جمع کروانا لازمی ہو تو یہ جوا بازی ہے جو کہ حرام ہے؛ کیونکہ وہمی فائدے کے بدلے میں یقینی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، آج کل انٹرنیٹ کی دنیا میں مارکیٹنگ کی یہی قسم رائج ہے۔
دوسری چیز: مارکیٹنگ صرف جائز چیزوں کی درست ہے، لہذا حرام کام کی ترویج اور تشہیر یا مارکیٹنگ بھی حرام ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، گناہ اور جارحیت کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو؛ اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔[المائدہ: 2]
اس لیے سودی ویزا کارڈ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے مارکیٹنگ کرنا حرام ہے، اسی طرح حرام ڈسکاؤنٹ کارڈ کی مارکیٹنگ بھی حرام ہو گی۔
چنانچہ حرام ڈسکاؤنٹ کارڈ کی شکل یہ ہے کہ: اس کی رکنیت حاصل کرنے والا شخص مختلف شاپنگ مال اور ہوٹل وغیرہ سے اشیائے ضرورت سستے داموں خریدنے کے لیے رقم ادا کرتا ہے، جو کہ جوا بازی میں آتا ہے اور یہ حرام ہے۔
نیز رابطہ عالم اسلامی کے تحت فقہی اکادمی کی جانب سے اٹھارویں اجلاس میں یہ قرار داد جاری ہو چکی ہے کہ ایسے کارڈ کا لین دین اور انہیں استعمال کرنا حرام ہے، ان کی قرار داد میں لکھا ہے کہ:
"متعلقہ موضوع پر پیش کی گئی علمی تحقیقات ، اور تفصیلی بحث و تمحیص کے بعد یہ قرار پایا کہ: اگر مخصوص رقم یا سالانہ فیس کے عوض مذکورہ ڈسکاؤنٹ کارڈ جاری کیے جاتے ہیں تو انہیں جاری کرنا یا خریدنا جائز نہیں ؛ کیونکہ اس میں جہالت پائی جاتی ہے؛ اس لیے کہ اسے خریدنے والا یہ تو جانتا ہے کہ اس نے کتنی رقم ادا کرنی ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اسے اس رقم کے عوض کیا کچھ ملے گا، چنانچہ یہاں رقم کی ادائیگی تو یقینی ہے، لیکن وصولی غیر یقینی ہے۔" ختم شد
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کی جانب سے بھی یہی فتوی صادر کیا گیا ہے کہ اس قسم کے ڈسکاؤنٹ کارڈ حاصل کرنا اور استعمال کرنا جائز نہیں ہیں، یہی موقف علامہ ابن باز اور علامہ ابن عثیمین رحمہما اللہ کا بھی ہے۔
مزید کے لیے آپ "فتاوی دائمی فتوی کمیٹی" (14/ 6)، "فتاوی ابن باز" (19/ 58)، اور لقاء الباب المفتوح " از ابن عثیمین : (53/ 9) کا مطالعہ کریں۔
خلاصہ:
سوال میں مذکور مارکیٹنگ کی خدمات اگر صارف یا خریدار کی مذکورہ آفر میں رکنیت حاصل کرنے پر ملتی ہیں ، اور ان کے لیے وہ پہلے کچھ رقم ادا کرتا ہے تا کہ اسے مزید ڈسکاؤنٹ ملے، یا کوئی بھی چیز خریدنے پر خصوصی رعایت دی جائے، یا بائع کی طرف سے پیش کی جانے والی کسی بھی سروس کے حاصل کرنے پر کم قیمت لگائی جائے تو یہ طریقہ کار حرام ہے، نیز سوال میں مذکور کارڈ کا تعلق بھی انہی ڈسکاؤنٹ کارڈز سے ہے جن کے متعلق تفصیل ویب سائٹ پر متعدد جوابات میں موجود ہے۔
چنانچہ جب یہ لین دین ہی حرام ہے ، تو اس حرام کام کی رہنمائی دینا بھی حرام ہو گا، یا لوگوں کو اس کے حصول میں تعاون فراہم کرنا بھی حرام ہو گا۔
اور اگر آپ کی ذکر کردہ ویب سائٹ پر خدمات یا لین دین کا طریقہ کار ہمارے بیان کر دہ طریقے سے ہٹ کر کچھ اور ہے تو پھر اس کے حکم کو واضح کرنے کے لیے پہلے اس کی تفصیلات بتلائیں تا کہ ہم اسی کی روشنی میں آپ کو جواب بتلا سکیں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب