میں ایک غیر مسلم شخص کی ذمہ داری میں بطور قلمکار کام کروں گا، میری ذمہ داری لڑکپن میں قدم رکھنے والے بچوں کے لیے واقعات لکھنے کی ہو گی، مجھے اس حوالے سے کچھ رہنمائی چاہیے جسے میں اس کام کو کرتے ہوئے اپنے سامنے رکھوں، میں پوری کوشش کروں گا کہ میرے لکھے ہوئے واقعات میں کوئی حرام چیز نہ آئے، لیکن اس کے باوجود میری تحریریں پڑھنے والے بہت بڑی تعداد میں غیر مسلم ہی ہوں گے۔ یہاں میری توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ان واقعات کی وضاحت کے لیے بعد میں تصاویر بھی لگائی جائیں گی، اور تصویریں لگانے کا کام کون کرے گا مجھے نہیں معلوم! تصویریں میں نے نہیں لگانی، تو کیا اس طرح سے میرا تحریر لکھنا بھی مجھ پر حرام ہو جائے گا؟ اور یہ بھی احتمال ہے کہ اگر میں ان کے ساتھ مل کر کام نہیں کرتا تو وہ کسی اور کو رکھ کر کام کروا لیں گے۔
نو عمر لڑکوں کی رہنمائی کے لیے کہانی نویسی کا حکم ہے؟
سوال: 357086
Table Of Contents
فکشن اور افسانہ نگاری کا حکم
بنیادی طور پر فکشن اور افسانہ نگاری لکھنا جائز ہے۔
ہم پہلے اپنی ویب سائٹ پر فکشن اور افسانہ نگاری کے بارے میں مختلف اقوال بتلانے کے بعد جواز کے قول کو راجح قرار دے چکے ہیں بشرطیکہ افسانہ با ہدف ہو اور خیر و بھلائی کی دعوت دے۔
لیکن تمام کے تمام ناولوں اور افسانوں کی کتب کو ایک ہی حکم دینا ممکن نہیں ہے، کیونکہ اس فن میں بہت سی کتابیں مفید ہیں تو بہت سی کتابیں قارئین کی اخلاقیات، دینداری، اور نظریات کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوئی ہیں۔
اس بنا پر آپ جو کچھ بھی لکھیں گے اس سب کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہوئے حکم دینا درست نہیں، اس لیے آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اپنی تمام تحریروں کو دیکھیں گے، اور ہر مرکزی خیال کو دیکھیں گے کہ اس میں کسی قسم کی خلاف شریعت بات نہ ہو کیونکہ ہمیں ہر خلاف شریعت بات سے منع کیا گیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ترجمہ: ہر خلاف شریعت بات سے بچو۔ الحج:30
علامہ محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت میں ہمیں قول زور سے منع کیا گیا ہے جو کہ جھوٹ اور باطل پر بولا جاتا ہے ۔۔۔ اسی طرح ہر اس بات کو بھی قول زور کہتے ہیں جو حق سے متصادم ہو؛ کیونکہ لفظ "زُور" کے لغوی معنی مائل ہو جانے اور ہٹ جانے کے ہیں۔ تو جو بات بھی حق سے مائل یا ہٹی ہوئی ہو گی تو قول زور ہے۔" ختم شد
"أضواء البيان"(5 / 750)
افسانہ نگاری اور ناول نویسی کے لیے اصول و ضوابط
کوئی بھی ایسی تحریر لکھنا جائز نہیں ہے جو باطل نظریات کو مہمیز دے، اخلاقی گراوٹ اور اضمحلال کی دعوت دے۔
اگر آپ اچھے خیالات کو الفاظ دے دیتے ہیں اور اپنی تحریر کے ذریعے خیر کی دعوت دیتے ہیں ، اس کے بعد اگر کوئی شخص اس میں وضاحتی تصاویر ڈال دیتا ہے تو "کوئی جان کسی دوسری کا بوجھ کبھی نہیں اٹھائے گی" کے تحت ان تصاویر کو بنانے کا گناہ انہی پر ہو گا، اگر آپ اس عمل کو پسند نہیں کرتے اور آپ نے ان تصاویر کو بنانے میں کوئی تعاون نہیں کیا تو آپ پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
آپ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہ کتابیں بچوں کے لیے ہیں، اگر معاملہ ایسے ہی ہے تو پھر بچوں کے ڈرائنگ اور تصویر بنانے میں شریعت نے کچھ رخصت رکھی ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (315944 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
تو خلاصہ یہ ہے کہ: آپ یہ ملازمت کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ آپ نے کہانی اچھی لکھی ہے اور اس میں کسی قسم کے غلط افکار و نظریات نہیں ہیں ، آپ کے کام کے جائز ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں جواز کے لیے محض جائز تفریح کا نظریہ کار فرما نہیں ہے، بلکہ یہاں کہانی نویسی کے فن کو اعلی اہداف اور بہترین مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے یعنی نوعمر لڑکوں کے دلوں میں صحیح عقیدہ اور اعلی اخلاقیات جاگزین کرنا مقصود ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب