کیا یہ ممکن ہے کہ آپ مجھے صبر پر ترغیب دینے والی اور صبر کرنے کی فضیلت بیان کرنے والی چند آیات اور احادیث بیان کر دیں؟
"اللہ عز و جل نے صبر کو ایسی سواری بنایا ہے جو کبھی لڑکھڑاتی نہیں ہے، صبر ایسی فوج ہے جو کبھی شکست خوردہ نہیں ہوتی، یہ ایسا محفوظ قلعہ ہے جس میں کبھی نقب زنی نہیں ہو سکتی، یہی وجہ ہے کہ صبر اور نصر دونوں سگے بھائی ہیں؛ کیونکہ نصر ہمیشہ صبر سے ملتی ہے، اور آسودگی تنگی کے بعد آتی ہے، اور مشکل کا وجود آسانی کے ساتھ ہوتا ہے۔ آدمی کو صبر کی بدولت بغیر کسی سنان و انسان کے کامیابی ملتی ہے، صبر کا مقام کامیابی میں ایسے ہی ہے جیسے انسانی جسم میں سر کا مقام ہے۔
بلکہ صبر کرنے والوں کے لیے عہد پورا کرنے والی سچی ذات نے اپنی محکم کتاب قرآن کریم اور فرقان حمید میں ضمانت دی ہے کہ اللہ عز و جل صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ادا کرے گا۔
اللہ عز و جل نے یہ بھی بتلایا ہے کہ اللہ عز و جل صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے کہ ان کی رہنمائی فرماتا ہے، انہیں ناقابل شکست کامیابی سے نوازتا ہے، اور واضح فتح نصیب کرتا ہے، چنانچہ اللہ عز و جل نے فرمایا:
وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (46)
ترجمہ: اور صبر کرو، یقیناً اللہ عز و جل صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ [الأنفال: 46]
اللہ عز و جل نے دینی امامت کو صبر اور یقین کے نتیجے کے طور پر بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ (24)
ترجمہ: اور ہم نے ان میں سے تب پیشوا بنائے جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے جب انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری نشانیوں پر یقین رکھتے تھے۔ [السجدة: 24]
اللہ عز و جل نے یہ بھی بتلایا کہ صبر کرنے والوں کے لیے صبر بہتر ہے اور پھر اس پر قسم بھی اٹھائی اور فرمایا:
وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ (126)
ترجمہ: اور اگر تم صبر کرو تو (اللہ کی قسم) وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہترین ہے۔ [النحل: 126].
اللہ عز و جل نے یہ بھی بتلایا ہے کہ صبر اور تقوی سے لیس افراد کو دشمن کی مکاری اور عیاری کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی چاہے دشمن طاقتور ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (120)
ترجمہ: اور اگر تم صبر کرو اور تقوی الہی اپناؤ تو تمہیں ان کی مکاری کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی؛ یقیناً اللہ عز و جل ان کی کارستانیوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔[آل عمران: 120]
اللہ عز و جل نے اپنے نبی سیدنا یوسف علیہ السلام کے بارے میں بتلایا کہ ان کے صبر اور تقوی دونوں نے مل کر ہی انہیں معزز اور عالی منصب پر جگہ دلوائی، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (90)
ترجمہ: یقیناً جو شخص بھی تقوی اپنائے اور صبر کرے تو اللہ عز و جل حسن کارکردگی کے حاملین کا اجر ضائع نہیں فرماتا۔ [يوسف: 90]
اللہ عز و جل نے کامیابی کو صبر اور تقوی کے ساتھ منسلک کیا ہے، چنانچہ اہل ایمان نے اللہ عز و جل کی اس بات کو سمجھا اور کامیابی پائی، اللہ عز و جل کا فرمان ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (200)
ترجمہ: اے ایمان والو! صبر کرو، ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو، اور ہر دم جہاد کے لیے تیار رہو، اور تقوی الہی اپناؤ تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ [آل عمران: 200]
اللہ عز و جل نے صبر کرنے والوں کے بارے میں بتلایا کہ اللہ عز و جل ان سے محبت فرماتا ہے، اللہ عز و جل کے اس فرمان سے صبر کرنے کی سب سے بڑی ترغیب ملتی ہے کہ محبت الہی پانے کے لیے صبر کا دامن تھام لیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ (146)
ترجمہ: اور اللہ عز و جل صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ [آل عمران: 146]
اللہ عز و جل نے صبر کرنے والوں کو تین خوش خبریاں سنائی ہیں، اور تینوں میں سے ہر ایک خوش خبری اس معیار کی ہے کہ دنیا دار لوگ اس پر رشک اور حسد کرتے ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (157)
ترجمہ: اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں: یقیناً ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور یقیناً ہم اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہیں جو راہِ راست پر ہیں۔ [البقرة: 155 - 157]
اللہ عز و جل نے اپنے بندوں کو صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرنے کی تاکیدی نصیحت کی ہے کہ جب تمہیں دینی یا دنیاوی تکالیف در پیش ہوں تو انہی کے ذریعے مدد طلب کرو، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (45)
ترجمہ: اور تم صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرو، اور یقیناً یہ خشوع کرنے والوں کے لیے گراں نہیں ہے۔ [البقرة: 45]
اللہ عز و جل نے جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کو صرف صبر کرنے والوں کے لیے ہی مختص فرمایا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ (111)
ترجمہ: یقیناً میں انہیں آج ان کے صبر کرنے کی وجہ سے بدلہ دے دیا ہے کہ وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔ [المؤمنون: 111]
اللہ عز و جل نے قرآن کریم میں واضح فرمایا ہے کہ اللہ عز و جل سے ثواب کی امید اور دنیا اور دنیاوی چکا چوند زینت پر عدم التفات صرف صبر کرنے والے اہل ایمان کو ہی حاصل ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ (80)
ترجمہ: جنہیں علم دیا گیا انہوں نے کہا: تمہاری ہلاکت ہو! ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے اللہ کا ثواب ہی بہترین ہے۔ لیکن یہ صبر کرنے والے ہی پاتے ہیں۔ [القصص: 80]
اللہ عز و جل نے یہ بھی بتلایا کہ برائی کو بھلے ترین طریقے سے اس طرح ختم کرنا کہ بد سلوک شخص بھی گہرا دوست بن جائے ، یہ خوبی بھی صرف صبر کرنے والوں کو حاصل ہوتی ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (34)
ترجمہ: اچھائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہو سکتیں، برائی کو بہترین طریقے سے ہٹا کہ جس کی آپ سے دشمنی ہے وہ بھی ایسے ہو جائے جیسے گہرا دوست ہے۔ [فصلت: 34] لیکن یہ خوبی صرف انہی لوگوں کو ملتی ہے جو : إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (35) ترجمہ: یہ کام صبر کرنے والے لوگ کرتے ہیں اور یہ بڑے نصیب والے ہی حاصل کرپاتے ہیں۔ [فصلت: 35]
اللہ عز و جل نے قسم اٹھا کر فرمایا: إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (3)
ترجمہ: یقیناً انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، عمل صالح کرتے رہے، اور باہمی حق کی تلقین کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہے۔ [العصر: 2 - 3]
اللہ عز و جل نے اپنی مخلوق کی دو قسمیں ذکر فرمائیں: دائیں ہاتھ والے اور بائیں ہاتھ والے۔ تو اللہ عز و جل نے دائیں ہاتھ والوں کو خصوصیت عطا کی کہ یہ باہمی صبر، اور ترس کھانے والے ہوتے ہیں۔
اللہ عز و جل نے اپنی آیات سے استفادہ صرف صبر اور شکر کرنے والوں کا خاصہ قرار دیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ان کے اس عمل میں بڑے حصے کو ممتاز قرار دیا جائے، چنانچہ قرآن کریم میں مختلف چار مقامات پر فرمایا: إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں صبر اور شکر کرنے والوں کے لیے۔ [إبراهيم: 5]، [لقمان: 31]، [سبأ: 19]، [الشورى: 33]
پھر اللہ عز و جل نے مغفرت اور اجر کا حصول عمل صالح اور صبر کرنے پر موقوف فرمایا، اور یہ عمل صرف اسی کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ عز و جل آسان فرما دے۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (11)
ترجمہ: ماسوائے ان لوگوں کے جو صبر کرتے ہیں اور عمل صالح کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں ان کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔ [هود: 11]
اللہ عز و جل نے یہ بھی بتلایا کہ صبر کرنا اور دوسروں سے درگزر کرنا ایسے اعمال ہیں کہ انہیں بجا لانے والا شخص کبھی بھی گھاٹے میں نہیں ہو سکتا، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (43)
ترجمہ: اور یقیناً جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو یقیناً یہ نہایت ہی پختہ امور میں سے ہے۔ [الشورى: 43]
اللہ عز و جل نے اپنے رسول کو بھی اپنے احکامات پر صبر یعنی ڈٹے رہنے کا حکم دیا، اور بتلایا کہ آپ میں ڈٹے رہنے اور صبر کرنے کی صلاحیت صرف اللہ عز و جل کی بدولت ہے، اور اس طرح سے ہمہ قسم کے مصائب جھیلنا آسان بھی ہو جائے گا، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا
ترجمہ: اور آپ اپنے رب کے حکم پر ڈٹ جائیں، یقیناً آپ ہماری نظروں میں ہیں۔ [الطور: 48]
اسی طرح فرمایا:
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ (127) إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ (128)
ترجمہ: اور صبر کر، یقیناً آپ اللہ کا صبر اللہ عز و جل کی ذات کے ساتھ ہی ہے۔ اور آپ ان پر غم زدہ نہ ہوں، اور نہ ہی ان کی چالبازیوں کی وجہ سے کوئی تنگی محسوس کریں۔ یقیناً اللہ عز و جل ان لوگوں کے ہمراہ ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں اور جو لوگ حسن کارکردگی کے حامل ہیں۔ [النحل: 127 - 128]
حقیقت یہ ہے کہ صبر مومن کے ایمان کا مضبوط ترین تنا ہے کہ اس تنے کے بغیر مومن کے ایمان کا وجود ہی نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص صبر نہیں کرتا تو اس کا کوئی ایمان بھی نہیں ہے، اور اگر صبر کے بغیر ایمان ہو گا بھی سہی تو نہایت ہی کمزور کیفیت میں ہو گا، ایسے ایمان والا شخص اللہ عز و جل کی بندگی بالکل کنارے پر رہتے ہوئے کرتا ہے، چنانچہ اگر اسے کوئی خیر حاصل ہو تو مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر کوئی آزمائش آ جائے تو فوری سے پہلے ہی رو گردانی کر لیتا ہے؛ یہ شخص دنیا میں بھی ناکام اور آخرت میں بھی نامراد ہو گا۔ اس شخص کے ہاتھ میں دنیا ہو یا آخرت ہر دو جہان میں صرف خسارہ ہی آئے گا۔
اگر سعادت مند لوگوں کو بہترین اور آسودہ زندگی میسر آتی ہے تو صرف صبر کی بدولت، اور اگر بلند و بالا منزلیں عبور کرتے ہوئے اعلی درجات تک پہنچ جاتے ہیں تو صرف شکر کی بدولت، اس طرح کامیاب و کامران ہونے والے یہ لوگ صبر و شکر کے پروں کے ساتھ نعمتوں والی جنتوں کے مالک بن جاتے ہیں، یقیناً یہ اللہ عز و جل کا خصوصی فضل ہے اللہ عز و جل جسے چاہے عنایت فرماتا ہے، اور یقیناً اللہ عز و جل بہت وسیع فضل والا ہے۔" ختم شد
عدۃ الصابرین، از ابن قیم رحمہ اللہ صفحہ:3 – 5۔
اور صبر کے متعلق احادیث بہت زیادہ ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص صبر کرنے کی عادت بنائے اللہ عز و جل اسے صبر عطا کر دیتا ہے، اور کسی کو صبر سے بڑی نوازش سے نہیں نوازا گیا۔)اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ : (1469) اور مسلم رحمہ اللہ : (1053) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جس کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ اللہ کے حکم کے مطابق کہے: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا یعنی: یقیناً ہم اللہ کے لیے ہیں اور یقیناً ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یا اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما اور مجھے اس سے بہتر متبادل عطا فرما۔ تو اللہ عز و جل اسے اس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔)اس حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح مسلم: (918) میں روایت کیا ہے۔
ایک اور روایت کے مطابق سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مومن کا معاملہ بہت ہی تعجب خیز ہے کہ اس کا ہر معاملہ خیر ہی خیر ہوتا ہے، اور یہ مومن کے علاوہ کسی کے لیے نہیں ہے۔ اگر مومن کو خوشی ملے تو اللہ کا شکر کرتا ہے، تو خوشی اس کے لیے خیر کا باعث بن جاتی ہے، اور اگر مومن کو تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے اس طرح تکلیف اس کے لیے خیر کا باعث بن جاتی ہے۔) اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم: (2999) میں روایت کیا ہے۔
صبر کی فضیلت، اور صبر کرنے پر ترغیب دلانے والی احادیث کے بارے میں مزید جاننے اور پڑھنے کرنے کے لیے آپ علامہ منذری رحمہ اللہ کی کتاب: "الترغيب والترهيب" (4/274-302) کا مطالعہ کریں۔
مسلمانوں کے خلیفہ سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کہتے تھے کہ:
"اگر اللہ عز و جل کسی بندے کو کوئی نعمت عطا کرے اور پھر وہ نعمت اپنے بندے سے واپس لے کر بندے کو صبر کی نعمت سے نواز دے تو اسی نوازی گئی صبر کی نعمت اس سے واپس لی گئی نعمت سے بہتر ہو گی۔"
واللہ اعلم