ميں جوان ہوں اورنصف دين مكمل كرنےكي رغبت كرتے ہوئے شادي كرنا چاہتا ہوں، ايك لڑكي سےمنگني كي ہے، شادي كےبہت سےخرچے مثلا مہر وغيرہ اور سامان تيار كرنا، ليكن ميں اس كي طاقت نہيں ركھتا ايك بھائي نے مجھے يہ بتايا ہےكہ بنكوں ميں مرابحہ ( نفع دينا ) كےنام سے ايك نظام موجود ہے، لھذا ميں بنك گيا تو بنك كےاہلكار نےمجھےبتايا كہ كسي بھي شوروم جا كرگاڑي لےلو، بنك يہ گاڑي خريد كر آپ كےنام كردے گا ليكن اس ميں گاڑي كي اصلي قيمت ( 95000 ) ريال ہےاور ساڑھے چھ برس كي مدت پر ( 40741 ) ريال بنك نفع لےگا اور ميرے پاس اس كےعلاوہ كوئي اور حل نہيں كيونكہ والد صاحب بہت زيادہ مقروض ہيں اور ميں نےبھي قرض لينےكي كوشش كي ہے كہ كوئي شخص مجھے بغير نفع كےقرض دے دے ليكن بنك كے علاوہ كوئي اورنہيں ملا جومجھے قرض دے اور بنك بھي تناسب كےحساب سے بغير كسي بيع وغيرہ كے نفع لےرہا ہے ( يعني مال كےبدلےمال ) جو كہ صريحا سود شمار ہوتا ہے، ميں شادي كرنا چاہتا ہوں مجھےفتنہ ميں پڑنے كا خدشہ ہے، برائےمہرباني فتوي دے كر عنداللہ ماجور ہوں ؟
بنك سےقسطوں پر گاڑي خريد كربيچنا اور اس سےحاصل كردہ رقم شادي ميں استعمال كرنا
سوال: 36410
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ جس معاملہ ميں پڑنا چاہتےہيں اصلا يہ دو معاملوں پر مشتمل ہے:
پہلا: بنك كےذريعہ گاڑي خريدنا، يہ اس وقت تك جائز نہيں جب تك اس ميں دو شرطيں نہ پائي جائيں:
پہلي شرط: گاڑي بنك كي ملكيت ہو، لھذا آپ كو گاڑي فروخت كرنے سےقبل شوروم سےبنك اپنے ليےگاڑي خريدے .
دوسري شرط: آپ كوگاڑي فروخت كرنےسےقبل بنك شوروم سےگاڑي نكال كر اپنےقبضے ميں كرے.
جب معاملہ ميں يہ دوشرطيں يا ان ميں ايك شرط نہ پائي جائے تو معاملہ حرام ہے. مزيد تفصيل كےليے سوال نمبر (36408 ) كا مطالعہ كريں.
دوسرا معاملہ:
يہ ايسي بيع ہےكہ يہ گاڑي صرف اس غرض سے ہي خريدي گئي ہے كہ مال حاصل كيا جاسكے، اور اسےتورق كا نام ديتےہيں، يعني چاندي كےحصول كےليے خريدوفروخت كرنا.
جمہور علماء كرام كےہاں يہ ايك شرط كےساتھ جائز ہے: كہ يہ گاڑي جس سے خريدي ہے اس كےعلاوہ كسي اور كو فروخت كي جائے.
مستقل فتوي كميٹي كےفتاوي جات ميں ہے:
سوال: مسئلہ تورق اور اس كےحكم كےبارہ ميں وضاحت كريں؟
كميٹي كا جواب تھا:
مسئلہ تورق يہ ہےكہ:
ادھارسامان خريديں اور پھر اسے آپ نےجس سےخريدا ہےاس كےعلاوہ كسي اور كواس كي قيمت سےفائدہ حاصل كرنے كےليےنقد فروخت كريں، جمہور علماء كےہاں ايسا كرنےميں كوئي حرج نہيں اھ
ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 161 )
سوال نمبر (45042 ) بھي ضرور ديكھيں.
لھذا جب دونوں معاملے مندرجہ بالا شروط كےمطابق ہوں توآپ كےليے ان شاء اللہ اس ميں كوئي حرج نہيں.
اللہ تعالي سے دعا ہے كہ آپ كو توفيق دے اور آپ كي مدد فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات