ایک مسلمان بھائی نے مسلسل چار سال رمضان کے روزے نہیں رکھے؛ کیونکہ وہ ان سالوں میں ایک یورپی ملک میں رہائش پذیر تھا اور وہاں پر روزہ قدرے لمبا تھا، اسے روزہ رکھنے کے شرعی طریقے کا علم نہیں تھا اس لیے اس نے روزہ نہیں رکھا حالانکہ وہ روزہ رکھنے کی استطاعت رکھتا تھا، تاہم اس نے رمضان کے ترک کیے ہوئے روزوں کی تعداد کے برابر مساکین کو کھانا کھلا دیا۔ اب وہ بوڑھا ہو چکا ہے تو وہ گزشتہ رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کا کفارہ کیسے دے؟ کیا اس کی وفات کی صورت میں اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا؟ جزاکم اللہ خیرا
لمبے روزوں کی وجہ سے کئی سال روزے نہیں رکھے، اب بوڑھا ہو گیا ہے اور قضا نہیں دے سکتا اس کا کیا حکم ہے؟
سوال: 364225
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
رمضان کا لمبا دن روزہ توڑنے کے لیے عذر نہیں ہے۔
اس شخص نے مریض یا مسافر نہ ہونے کے باوجود روزہ نہیں رکھا، اس نے غلطی کی ہے، جب تک معتبر مشقت روزے دار کو در پیش نہ ہو تو محض دن لمبا ہونے کی وجہ سے کسی کو روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے، اگر معتبر مشقت ہو تو اس قدر چیز کھا پی لے کہ مشقت ختم ہو جائے اور بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے۔
اسی طرح کھانا کھلا کر بھی غلطی کی؛ کیونکہ کھانا کھلانے کا عمل اسی وقت صحیح ہو گا جب قضا دینے سے عاجز ہو۔
پھر اتنی مدت تک قضا نہیں دی یہ بھی غلطی ہے، اس شخص پر لازم ہے کہ ان تمام غلطیوں پر اللہ تعالی سے توبہ کرے، اور اس کوتاہی پر بھی توبہ کرے کہ جس چیز کو سیکھنا اس پر لازم تھا اس نے کوتاہی برتتے ہوئے نہیں سیکھا۔
دوم:
قضا دینے کی استطاعت رکھتے ہوئے اس نے جو کھانا کھلایا ہے وہ کافی نہ ہو گا، تاہم ان شاء اللہ کھانا کھلانے کا اجر ملے گا۔
سوم:
اور اگر وہ اب روزہ رکھنے کی استطاعت رکھتا ہے تو وہ روزوں کی قضا بھی دے اور ہر دن کے ساتھ قضا میں تاخیر کی وجہ سے کفارہ بھی دے۔
کفارے کی مقدار: ایک مسکین کا کھانا ہے، یعنی اسے ایک وقت کا کھانا کھلا دے، یا ڈیڑھ کلو چاول دے دے۔
اگر روزہ رکھنے یا کفارہ دینے سے پہلے فوت ہو جائے تو ولی اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے یا اس کے ترکہ میں سے کفارہ دے سکتا ہے۔
اور اگر وہ شخص اب روزے رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس پر ہر دن کے بدلے میں ڈبل کفارہ ہو گا، ایک کفارہ روزے کا اور دوسرا قضا میں تاخیر کا۔
چنانچہ اگر کفارہ ادا کرنے سے پہلے فوت ہو گیا تو اس کے ترکہ میں سے ہر دن کے عوض ڈبل کفارہ دیا جائے گا۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اگر آپ نے سستی کرتے ہوئے قضا میں تاخیر کی ہے، حالانکہ آپ کو قضا دینے کا موقع بھی ملا، تو آپ پر قضا دینا لازم ہے، اور ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائیں، اور قضا کی تاخیر میں اللہ تعالی سے توبہ بھی کریں۔
کھانا کھلانے کے لیے نصف صاع ہر اس روزے کے بدلے میں دیں گے جن روزوں کی قضا آپ نے آئندہ رمضان آنے سے پہلے نہیں دی، نصف صاع تقریباً ڈیڑھ کلو کا بنتا ہے، یہ فقرا اور مساکین کو دے دیا جائے گا، سارا کفارہ کسی ایک مسکین کو بھی دیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر آپ بڑھاپے کی وجہ سے یا ایسے مرض کی وجہ سے کہ جس سے اب شفا یابی ممکن نہیں ہے ، اور یہ بات معتبر معالج نے بتلائی ہو تو آپ سے قضا ساقط ہو جائے گی اور آپ پر کھانا کھلانا لازم ہو جائے گا، تو علاقائی بنیادی غذا کھجور، چاول وغیرہ میں سے نصف صاع ہو گا۔ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔" ختم شد
فتاوى ابن باز (15/ 204)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب