ميں عربى النسل مسلمان ہوں انٹرنيٹ كے ذريعہ ايك لڑكى سے تعارف ہوا جو كسى دوسرے ملك ميں رہتى ہے ہمارا تعلق شريعت الہى كى حدود ميں تھا كيونكہ ميں اللہ سے بہت زيادہ خوف ركھتا ہوں، ايك دينى التزام كرنے والى لڑكى ہونے كى خاطر ميں اس سے محبت كرنے لگا، ہمارى محبت ان شاء اللہ اللہ كے ليے تھى.
ميں نے اسے شادى كى پيشكش كى تو اس نے قبول كر لى الحمد للہ اللہ نے ميرى دعا قبول فرمائى كہ مجھے ايك نيك و متقى بيوى عطا كى، خاص كر ميں كئى برس سے شادى كا عزم ركھتا تھا، اس لڑكى نے بتايا كہ اس كى والدہ اجنبى ہے اور ابتدائى طور پر شادى كے ليے تيار ہے، كيونكہ اس كا والد ان سے غائب تھا، بالآخر واپس آتا تو خوشى ہوئى ليكن اس نے اپنى بيٹى كو كسى اپنے ملك كے ايك شخص سے شادى كرنے كى تيارى كا كہا، اور اس كے ليے بيٹى سے مشورہ بھى نہيں كيا.
اب لڑكى خوفزدہ ہے كيونكہ بعض اوقات والد اسے مارتا بھى ہے، وہ كہتى ہے كہ اس كا والد پاگل ہے، اللہ ہم سب كو ہدايت نصيب فرمائے.
لڑكى اس شخص سے شادى نہيں كرنا چاہتى، بلكہ مجھ سے شادى كرنا چاہتى ہے، ميں بھى اسى سے شادى كرنا چاہتا ہوں، لڑكى نے مجھے كہا كہ ہم خفيہ طور پر شادى كر ليتے ہيں پھر بعد ميں والد كو بتا ديں گے، لڑكى اٹھارہ برس سے زائد عمر كى ہے، آپ بتائيں كہ ہميں كيا كرنا چاہيے ؟
انٹرنيٹ كے ذريعہ تعلق قائم ہونے والى لڑكى سے شادى كرنا چاہتا ہے ليكن لڑكى كا والد نہيں مانتا
سوال: 36618
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
عزيز بھائى اللہ تعالى ہمارے اور آپ كے عيوب كى پردہ پوشى فرمائے آپ كو معلوم ہونا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى تم دونوں كو ديكھ رہا ہے اور تمہارى ہر حركت پر مطلع ہے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
وہ اللہ آنكھوں كى خيانت كو جانتا ہے، اور جو سينوں ميں چھپا ہے اس كا بھى علم ركھتا ہے غافر ( 19 ).
اور آپ كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ آپ نے وہ كچھ كيا ہے جو آپ دونوں كے ليے شرعا جائز نہ تھا، وہ يہ كہ آپ كا ايك دوسرے كو خط و كتابت كرنا اور آپس ميں بات چيت كرنا، آپ نے ديكھا كہ يہ تعلقات كس طرح بڑھے اور شيطان نے آپ دونوں كو كس طرح گمراہ كيا اور آپ كے تعلقات كو مزين كر كے پيش كيا اور اسے " اللہ كے ليے محبت " كى صورت ميں سامنے لايا.
دوم:
ہم جانتے ہيں كہ محبت ايك قلبى چيز ہے، اور انسان جس چيز كا مالك نہ ہو اس پر وہ قابل ملامت نہيں، ليكن ان تعلقات تك لے جانے والے اسباب اور ذرائع استعمال كرنے پر وہ مكمل ملامت كا مستحق ہے كہ اس نے حرام نظر اٹھائى اور اسى طرح خفيہ طور پر خيانت والے كلمات بھى ادا كيے، اور ٹيلى فون اور نيٹ كے ذريعہ ايك غير محرم لڑكى سے بات چيت كرتا رہا، يہ سب شيطانى ہتھكنڈے تھے جن سے وہ مسلمان كو گمراہ كرتا ہے تا كہ وہ فحاشى ميں پڑ جائيں.
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو تم شيطان كى پيروى مت كرو جو كوئى بھى شيطان كى پيروى كرے تو وہ تو بےحيائى اور برے كاموں كا ہى حكم كريگا، اور اگر اللہ تعالى كا تم پر فضل و كرم نہ ہوتا تو تم ميں سے كوئى بھى پاك صاف نہ ہوتا، ليكن اللہ تعالى جسے پاك كرنا چاہے پاك كر ديتا ہے، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے النور ( 21 ).
پھر يہ بھى قابل ملامت ہے كہ اس طرح كے اقدام كيے گئے اور حد سے تجاوز كيا گيا جس كى ابتداء حرام اور انتہاء باطل نكاح پر ہے.
اب معاملہ اس حد تك جا پہنچا ہے كہ آپ كے تعلقات اس حد تك جا پہنچے جہاں آپ بيان كر رہے ہيں، اب معاملہ لڑكى اور اس كے گھر والوں كے ہاتھ ميں ہے، اس ليے اگر وہ عورت اپنے والد كو مطمئن كر سكى كہ وہ اس كى شادى ايسے شخص كے ساتھ نہ كرے جسے وہ چاہتى نہيں، اور اس كى ماں اور وہ دونوں ہى ولى كو آپ كے ساتھ شادى كرنے پر راضى و مطمئن كر سكيں، اور وہ شادى كے قابل بھى ہو جيسا كہ آپ بيان كر رہے ہيں تو پھر آپ اس كے ليے شرعى طريقہ اختيار كريں.
شرعى طريقہ يہ ہے كہ آپ اس كے والد سے اس كا رشتہ طلب كريں، يا پھر اس سے جسے وہ اس كى شادى كے ليے وكيل بنائے، اور آپ ديكھيں كہ يہ راستہ مسدود ہے تو پھر آپ كے ليے يہ تعلقات قائم ركھنے حلال نہيں، اور يہ ياد ركھيں كہ جو كوئى بھى اللہ كے ليے كسى چيز كو ترك كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے اس كا نعم البدل عطا فرماتا ہے.
ہو سكتا ہے اس عورت كا آپ كے علاوہ كسى دوسرے شخص سے شادى كرنا ہى بہتر ہو، اور آپ كے ليے اس كے علاوہ كسى اور عورت سے شادى كرنے ميں ہى بہترى ہو.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو حالانكہ وہ تمہارے ليے بہتر ہو، اور ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو پسند كرتے ہو ليكن وہ تمہارے ليے برى ہو، اور اللہ تعالى ہى جانتا ہے تم نہيں جانتے البقرۃ ( 216 ).
اور اگر بالفرض يہ لڑكى سچى بھى ہو كہ اس كا والد پاگل ہے، ليكن ہمارے خيال ميں ايسا نہيں ہے ؟! يعنى وہ ايسا پاگل نہيں جس كى بنا پر وہ ولى نہ سكے اور اسے شرعى طور پر ولى بننے كا اہل بننے ميں مانع ہو، يا پھر وہ برابر اور كفو كے رشتہ سے شادى كرنے سے روكنے والا قرار ديا جا سكے، يہ كوئى شرعى عذر نہيں ہے كہ اس كى بنا پر اس سے ولايت منتقل ہو كر كسى اور ولى ميں چلى جائے.
يعنى باپ كى بجائے دادا ولى بن جائے، ايسا نہيں ہو سكتا اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 7193 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
رہى يہ سوچ كہ ولى كى اجازت كے بغير خفيہ طور پر نكاح كر ليا جائے، يہ تو اور بڑى مصيبت ہے، اللہ سبحانہ و تعالى ہميں اور آپ كو اپنے غضب اور غضب والے اسباب سے محفوظ ركھے.
كيا آپ دونوں كو علم نہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" جس عورت نے بھى اپنے اولياء كى اجازت كے بغير نكاح كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے "
سنن ابو داود جديث نمبر ( 2083 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
تو پھر آپ دونوں اس باطل كام كے بارہ ميں كيسے سوچ رہے ہيں، جو اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو پسند نہيں، اور پھر آپ يہ گمان كرتے ہيں كہ آپ كى محبت اللہ كے ليے ہے؟!!
كيا آپ كو يہ علم نہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نكاح كے اعلان اور مشہور كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
" نكاح كا اعلان كرو "
امام احمد رحمہ اللہ نے اسے عبد اللہ بن زبير سے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار ديا ہے.
اور اس اعلان نكاح كو حلال اور حرام نكاح كے مابين امتياز قرار ديتے ہوئے فرمايا:
" حلال اور حرام كے مابين فرق يہ ہے كہ دف بجائى جائے اور آواز نكالى جائے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1088 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
امام باجى رحمہ اللہ موطا كى شرح ميں رقمطراز ہں:
" زنا جو كہ خفيہ اور سرى طور پر ہوتا كے مشابہ ہونے كى بنا پر سرى اور خفيہ طور پر نكاح ممنوع ہونے مين كوئى اختلاف نہيں، اس ليے نكاح ميں خوشى كا اظہار اور وليمہ كرنا مشروع كيا ہے، كيونكہ اس ميں اعلان اور مشہورى ہے "
اور ايك مقام پر لكھتے ہيں:
" ہر وہ نكاح جس كے گواہ چھپائے جائيں تو يہ سرى نكاح كہلائيگا، چاہے گواہ كتنے ہى زيادہ كيوں نہ ہوں "
اس ليے اللہ كے بندے آپ يہ ديكھيں كہ آپ كس چي زكا عزم كيے ہوئے ہيں، كيا آپ كا ارادہ حلال نكاح كا ہے جيسا اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے، يا كہ يہ خواہش اور فحاشى اور شيطانى پيروى ہے ؟؟؟
آپ قدم ڈگمگانے سے قبل بچ جائيں اور اپنے آپ كو محفوظ كر ليں، كہ آپ دونوں اپنى زندگى كى ابتدا آگ كے گھڑے كے كنارے سے كريں، اللہ تعالى ہميں اور آپ كو جہنم كى آگ سے محفوظ ركھے.
رہا يہ مسئلہ كہ لڑكى كا باپ لڑكى كے ناچاہتے ہوئے بھى اس شخص سے اس كى شادى كرنا چاہتا ہے، جو كہ باپ اور كسى دوسرے ولى كو حق نہيں كہ وہ كسى ايسے شخص سے اس كى شادى كرے جسے وہ نہ چاہتى ہو، جيسا كہ ہم سوال نمبر ( 26852 ) اور ( 22760 ) كے جوابات ميں بيان كر چكے ہيں.
ليكن اس ميں آپ كو كوئى حق حاصل نہيں، اور آپ اس كے ذمہ دار نہيں، آپ اس لڑكى اور اس كے اولياء كو چھوڑ ديں ہو سكتا ہے اگر آپ دونوں كے مقدر ميں يہ شادى نہ ہو اور آپ اس سے پيچھے ہٹ جائيں اور اس كى زندگى سے نكل جائيں جيسا كہ آپ كو كرنا چاہيے تو ہو سكتا ہے اس صورت ميں وہ اس دوسرے شخص يا كسى اور ميں رغبت كرنے لگے جو اس كے ليے بہتر ہو، اللہ تعالى تم دونوں اور انہيں سب كو اپنے فضل و كرم سے غنى كر دے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات