میں حیض سے متعلق سوال کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے مغرب سے تقریباً 20 منٹ پہلے درد محسوس ہوا تو میں نے جا کر دیکھا لیکن ابھی تک خون نہیں تھا، پھر میں نے اپنا روزہ مکمل کر لیا ، پھر جب میں نماز کے لیے جانے لگی تو تب بھی شدید درد ہوا تو میں نے بہ مشکل وضو مکمل کیا اور نماز کے لیے چلی گئی اور نماز مکمل کی، پھر نماز کے دوران درد کم ہو گیا ، عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب درد کم ہو جائے تو مطلب یہ ہے کہ خون جاری ہو گیا ہے، لیکن میں نے اپنی نماز نہیں توڑی بلکہ پوری کر لی، کیونکہ مجھے ابھی خون کے نکلنے کا احساس نہیں ہوا تھا، بہ ہر حال جب میں نے اپنی نماز مکمل کر لی تو واش روم جا کر چیک کیا تو خون موجود تھا، اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی آیا ہے، تو اب سوال یہ ہے کہ میں مغرب کی نماز دہراؤں ؟ اور کیا اس دن کا روزہ بھی دوبارہ رکھوں؟
عورت کو مغرب سے پہلے، یا نماز مغرب کے دوران یا بعد میں خون آنے پر شک ہے، تو اس کے روزے اور نماز کا کیا حکم ہے؟
سوال: 366204
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آپ کا اس دن کا روزہ صحیح ہے؛ کیونکہ خون کے آنے کا احساس یا خون دیکھنے کا معاملہ مغرب کے بعد ہی ہوا ہے، اور جب خون کے آنے کے متعلق شک ہو کہ یہ مغرب کے بعد آیا ہے یا پہلے تو اصول یہ ہے کہ: "رونما ہونے والی حادث چیز کو قریب ترین وقت کی طرف منسوب کیا جائے گا" یہ فقہی قاعدہ ہے، اور یہاں اقرب ترین وقت مغرب کے بعد کا ہے۔
اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ: "جس وقت کسی معاملے کے رونما ہونے کے وقت کے متعلق اختلاف ہو جائے اور وقت کی تعیین کے لیے کوئی دلیل یا قرینہ بھی نہ ہو تو اس کے رونما ہونے کا وقت؛ قریب ترین وقت سمجھا جائے گا، کیونکہ یہ وقت یقینی ہے جبکہ دور والا وقت بعید بھی ہے اور مشکوک بھی ہے، تاہم اگر دور والے وقت کے متعلق ثبوت ہوں تو پھر اسی کو متعین کیا جائے گا۔" ختم شد
"موسوعة القواعد الفقهية" ، از ڈاکٹر محمد صدقی برنو: (12/ 316)
علامہ سیوطی رحمہ اللہ اپنی کتاب: الأشباه والنظائر : صفحہ: 59میں لکھتے ہیں:
"قاعدہ: ہر حادث کے متعلق اصول یہ ہے کہ اسے قریبی زمانے میں سمجھا جائے گا۔ اس قاعدے کے چند فرعی مسائل یہ ہیں: ایک شخص نے اپنے کپڑوں پر منی لگی ہوئی دیکھی اور اسے احتلام بھی یاد نہ ہو تو صحیح موقف کے مطابق اس پر غسل کرنا لازم ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کتاب الام میں کہتے ہیں: اس پر آخری نیند کے بعد پڑھی ہوئی تمام نمازوں کا اعادہ بھی لازم ہے۔" ختم شد
دوم:
مغرب کی نماز کے بارے میں یہ ہے کہ اگر آپ کو غالب گمان ہو کہ خون نماز کے دوران نکلا ہے؛ کیونکہ آپ نے بتلایا کہ درد کم ہو گیا تھا اور پھر نماز کے فوری بعد آپ نے دیکھا کہ خون تازہ تازہ جاری ہوا ہے، یا اسی طرح کا کوئی اور قرینہ ہو جو غالب گمان کو تقویت دے تو پھر نماز صحیح نہیں ہو گی، اور طہر کے بعد آپ پر مغرب کی نماز کا اعادہ لازم ہے۔
اور اگر غالب گمان نہ ہو بلکہ شک ہو تو پھر آپ کی نماز صحیح ہے؛ کیونکہ ہم نے پہلے واضح کیا ہے کہ حادث کو اس کے قریب ترین وقت کی طرف منسوب کیا جائے گا، چنانچہ یہ حکم لگایا جائے گا کہ خون نماز کے بعد آیا ہے۔
شیخ محمد بن محمد مختار شنقیطی حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایک عورت نے مغرب کی نماز کے بعد حیض کا معمولی سا خون دیکھا ، اور اسے نہیں معلوم کہ یہ خون مغرب سے پہلے آیا ہے یا بعد میں؟ اس کے روزے اور نماز کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"عورت نے جب خون دیکھا اور اسے غالب گمان یہ ہوا کہ یہ مغرب سے پہلے آیا ہے تو اس کا روزہ ٹوٹ جانے کے متعلق کوئی شک نہیں ہے، اور اس پر قضا بھی لازم ہے۔
لیکن اگر اسے گمان ہو کہ خون ابھی تازہ ہے، اور یہ مغرب کے بعد ہی آیا ہے تو اس کا روزہ صحیح ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، اور طہر کے بعد نماز مغرب کی قضا دے گی۔
لیکن اگر عورت کو تردد اور شک ہو تو اہل علم کے ہاں اصول یہ ہے کہ: "اسے قریب ترین وقت کی طرف منسوب کیا جائے گا" تو اصولی طور پر روزہ صحیح ہے یہاں تک کہ روزہ صحیح نہ ہونے کی کوئی دلیل مل جائے، اور یہاں اصل یہ ہے کہ عورت نے مکمل دن کا روزہ رکھا ہے، اور وہ اس روزے کو رکھ کر بری الذمہ ہے، تا آنکہ روزے پر اثر انداز ہونے والا خون مغرب سے پہلے ثابت ہو جائے۔ اس لیے اس کے روزے کو صحیح قرار دیا جائے گا اور اس خون کا اس دن کے روزے پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔
باقی رہ گیا نماز مغرب کا مسئلہ تو چونکہ اگر آپ کہتے ہیں کہ روزہ صحیح ہے تو اسے مغرب کی نماز کی قضا دینی ہو گی، اور اگر آپ کہتے ہیں کہ اس کا روزہ صحیح نہیں ہے تو پھر مغرب کی نماز کی قضا نہیں دینی، چنانچہ اگر روزے کی قضا سے یہ خاتون بچ گئی تو مغرب کی قضا دینی ہو گی؛ کیونکہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد حیض آئے تو اس نماز کی طہر کے بعد قضا دینی ہو گی، یہاں نماز کا آخری وقت پانا ضروری نہیں ہے جیسے کہ فقہائے احناف اور امام احمد کے بعض شاگردوں کا موقف ہے۔" ختم شد
شرح زاد المستقنع از شیخ شنقیطی
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (191684 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات