قربانى كا جانور كس وقت ذبح كيا جائيگا ؟
قربانى كرنے كا وقت
سوال: 36651
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
قربانى كرنے كا وقت عيد الاضحى كى نماز كے بعد شروع ہوتا اور تيرہ ذوالحجہ كے دن غروب آفتاب كے وقت ختم ہوتا ہے، يعنى قربانى ذبح كرنے كے ليے چار يوم ہيں، ايك دن عيد والا اور تين اس كے بعد.
ليكن افضل يہ ہے كہ نماز عيد كے بعد قربانى جلد كى جائے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمل تھا، اور پھر عيد والے دن وہ سب سے پہلے اپنى قربانى كا گوشت كھائے.
مسند احمد ميں بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كے روز كچھ كھا كر نماز عيد كے ليے جاتے، اور عيد الاضحى كے روز نماز عيد كے بعد آ كر اپنى قربانى كے گوشت ميں سے كھاتے "
مسند احمد حديث نمبر ( 22475 ).
زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ميں ابن قطان سے نقل كيا ہے كہ يہ حديث صحيح ہے.
ديكھيں: نصب الرايۃ ( 2 / 221 ).
زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى كا قول ہے: ايام نحر ( يعنى قربانى كے ايام ) يو النحر ( يعنى عيد والا دن ) اور اس كے بعد تين يوم ہيں"
اہل بصرہ كے امام حسن، اور اہل مكہ كے امام عطاء بن ابى رباح، اور اہل شام كے امام الاوزاعى رحمہم اللہ اور فقھاء كے امام امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے، اور اس ليے كہ تين ايام اس ليے كہ يہ منى اور رمى جمرات كے ساتھ خاص ہيں، اور يہى ايام تشريق ہيں، اور ان كے روزے ركھنا منع ہے، چنانچہ يہ ان احكام ميں ايك جيسے بھائى ہيں، تو پھر بغير كسى نص اور اجماع كے ذبح كرنے كے جواز ميں فرق كيسے كيا جا سكتا ہے.
اور دو مختلف وجوہات سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپ نے فرمايا:
" منى سارے كا سارا نحر كرنے كے ليے جگہ ہے، اور سارے كے سارے ايام تشريق ذبح كرنے كے دن ہيں " انتہى.
اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 2476 ) ميں صحيح كہا ہے.
ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 319 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " احكام الاضحيۃ " ميں قربانى كرنے كے وقت كے متعلق كہتے ہيں:
" يوم النحر والے دن نماز عيد كے بعد سے ليكر ايام تشريق كے آخرى دن كا سورج غروب ہونے تك ہے اور يہ آخرى دن تيرہ ذوالجہ كا ہوگا، تو اس طرح قربانى كرنے كے ايام چار ہيں، عيد والا دن، اور تين يوم اس كے بعد والے، چنانچہ جس شخص نے بھى نماز عيد سے فارغ ہونے سے قبل ہى قربانى كر لى، يا پھر تيرہ ذوالحجہ كے غروب آفتاب كے بعد ذبح كى تو اس كى قربانى صحيح نہيں ہوگى ….
ليكن اگر اس كے ليے ايام تشريق سے تاخير ميں كوئى عذر پيش آ جائے، مثلا اس كى كوتاہى كے بغير قربانى كا جانور بھاگ جائے اور وہ وقت ختم ہونے كے بعد اسے ملے، يا پھر اس نے كسى شخص كو قربانى كرنے كا وكيل بنايا تو وكيل قربانى كرنا ہى بھول گيا حتى كہ وقت نكل جائے، تو عذر اور نماز بھول جانے يا سوئے رہنے والے شخص پر قياس كرتے ہوئے كہ جب اسے ياد آئے يا پھر بيدار ہو تو نماز ادا كر لے اس قياس كى بنا پر وقت نكل جانے كے بعد قربانى كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اور ان چار ايام ميں دن يا رات كے كسى بھى وقت قربانى كرنى جائز ہے، ليكن دن كے وقت قربانى كرنا زيادہ بہتر اور افضل ہے، اور ان ايام ميں سے بھى عيد والے روز دونوں خطبوں كے بعد قربانى كرنا زيادہ افضل ہے، اور ہر پہلا دن دوسرے دن سے افضل ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں نيكى اور بھلائى اور خير ميں جلدى كرنا ہے " انتہى مختصرا.
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
" اہل علم كے صحيح قول كے مطابق حج تمتع اور حج قران كى قربانى كرنے كے چار دن ہيں، ايك عيد والا دن، اور تين يوم اس كے بعد، اور قربانى كا وقت چوتھے روز كا سورج غروب ہونے پر ختم ہو جاتا ہے "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 406 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب