0 / 0

كيا بيوى سے مشورہ كيا جائے اور اس كى تجاويز سنى جائيں

سوال: 36748

بيوى كے ساتھ كس طرح معاملہ كيا جائے آيا اس كى تجاويز سنى جائيں اور اس سے مشورہ كيا جائے گا يا نہيں ؟
ميں يہ سوال اس ليے كر رہا ہوں كيونكہ ميرى رائے ہے كہ عورتيں دل سے نصيحت كرتى اور تجاويز پيش كرتى ہيں نہ كہ اپنى عقل سے، اس ليے كس حد تك آدمى كو اپنى بيوى كى نصيحت سننى چاہيے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اللہ سبحانہ و تعالى نے بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:

اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19 ).

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى فرمايا ہے:

” تم عورتوں سے حسن سلوك كيا كرو….. چنانچہ عورتوں سے حسن سلوك كرو “

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5186 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1468 ).

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” تم ميں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں كے ليے بہتر ہو، اور ميں تم ميں سے اپنے گھر والوں كے ليے بہتر ہوں “

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3895 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح الجامع حديث نمبر ( 3314 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ بيوى سے مشورہ كرنا اور اس كى نصيحت كو سن كر اسے قبول كرنا حسن معاشرت كى تكميل ميں شامل ہوتا ہے، اور اس سے بيوى كى دلجوئى بھى ہوتى ہے، اور اس سے بيوى يہ محسوس كريگى كہ اس پر بھى اپنے گھر كى اصلاح كرنے كى ذمہ دارى عائد ہوتى ہے، اور وہ بھى اپنے خاندان اور بچوں كى ذمہ دار ہے، خاص كر جب آدمى كو اپنى بيوى كے تجربہ اور حكمت و عقل كا تجربہ ہو، اور وہ ديكھے كہ بيوى معاملات ميں بڑى باريك نظر ركھتى ہے، اور جلدباز نہيں، اور نہ ہى وہ جذبات كى رو ميں بہنے والوں ميں شامل ہوتى ہے.

پھر بيوى سے مشورہ كرنا اور اسے قبول كرنا افضل ہے يا كہ ايسا نہيں يہ چيز موضوع كے اعتبار سے ہوگى جس ميں عورت كا مشورہ ليا جائے، اور اس كى نصيحت پر كان ركھا جائے كہ آيا كہيں اس مسئلہ اور موضوع ميں اس كى رائے كے پيچھے جذبات تو كارفرما نہيں.

اور پھر خاوند اور بيوى كے حالات مختلف ہونے كى بنا پر بھى يہ چيز مختلف ہوگى كہ وہ كتنا ضبط كر سكتے ہيں.

جب آدمى كے ليے بيوى كى بات اور اس كى رائے رد كرنے ميں مصلحت ہو يا پھر بيوى كا مشورہ غلط ہو تو خاوند كو چاہيے كہ وہ اسے قبول نہ كرنے ميں نرمى سے كام لے، اور بيوى كى رائے كو بےوقوفى مت قرار دے، يا اس كى نصيحت كو ردى نہ كہے، بلكہ اسے چاہيے كہ وہ حسب استطاعت اس سلسلہ ميں صحيح وجہ كو سامنے ركھے اور بيان كرے.

آپ صلح حديبيہ كے واقعہ پر غور كريں كہ اس واقعہ ميں كيا ہوا تا كہ آپ كو ايك عقلمند اور حكمت ركھنے والى عورت سے مشورہ كرنے كى قدر و قيمت معلوم ہو سكے، كيونكہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قريش سے صلح كى كہ اس سال واپس چلے جاتے ہيں اور مكہ ميں داخل نہيں ہونگے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام سے فرمايا:

” اٹھو اور قربانى كے جانور ذبح كر دو “

راوى بيان كرتے ہيں كہ: اللہ كى قسم ان ميں سے كوئى شخص بھى نہ اٹھا، حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تين بار يہى حكم ديا، ليكن ان ميں سے كوئى بھى شخص نہيں اٹھا.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس خيمہ ميں تشريف لے گئے اور لوگوں كى جانب سے آپ كو جو كچھ پيش آيا وہ بيان كرنے لگے تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے كہا:

” اے اللہ كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كيا آپ ايسا كرنا پسند فرماتے ہيں ؟!

تو پھر آپ جائيں اور ان ميں سے كسى كے ساتھ بھى كلام مت كريں، بلكہ آپ خود اپنى ہدى كا جانور ذبح كر ديں، اور سر مونڈنے والے كو بلا كر اپنا سر منڈا ديں “

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا ہى كيا، چنانچہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ كام كيا تو باقى لوگوں نے بھى اٹھ كر اپنى ہدى كے جانور ذبح كر ديے “

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” اس حديث ميں مشورہ كرنے كى فضيلت پائى جاتى ہے كہ كسى فاضلہ عورت سے مشورہ كرنا جائز ہے ” اھـ

اور آپ موسى عليہ السلام كے قصہ پر بھى ذرا غور كريں كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے كس طرح موسى كى فرعون كے گھر ميں پرورش كى، اور آسيہ رضى اللہ تعالى عنہا كا مشورہ كتنا بابركت تھا:

اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور فرعون كى بيوى كہنے لگى: اسے قتل مت كرو، يہ ميرى اور آپ كى آنكھوں كى ٹھنڈك ہے، ہو سكتا ہے ہم اسے اپنا بيٹا بناليں اور يہ ہميں فائدہ دے، اور انہيں شعور بھى نہيں تھا القصص ( 9 ).

اور اسى سورت ميں مدين كے چشمہ پر دو عورتوں كا قصہ بھى بيان ہوا ہے، ان ميں سے ايك نے اپنے باپ سے كہا:

اے ابا جان يقينا جسے آپ مزدور اور ملازم ركھيں وہ طاقتور اور امانتدار ہونا چاہيے القصص ( 26 ).

ديكھيں اس عورت كى عقلمندى كو اور اس كے علم كى فروانى كتنى تھى كہ اسے ملازمت كى اہليت كا كس قدر علم تھا اور كام كاج ميں امانت كى حفاظت كا كتنا شعور ركھتى تھى، اور پھر اس مشورہ كا اس گھر پر كتنى بركت نازل ہوئى تھى.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android