میں رمضان کے روزے تو رکھتی ہوں لیکن نماز نہيں پڑھتی توکیا میرا روزہ صحیح ہے ؟
بے نماز کا روزہ قبول نہيں
سوال: 37820
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
تارک نماز کے روزے قبول نہیں بلکہ اس کا کوئي عمل بھی قبول نہيں ہوتا کیونکہ نمازترک کرنا کفر ہے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( شرک وکفر اوربندے کے مابین حد فاصل نماز ترک کرنا ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 82 ) ۔
آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 5208 ) کے جواب کا مطالعہ کریں
اوراس لیے کہ بھی کافر کا توکوئی بھی عمل قابل قبول نہیں اس کی دلیل فرمان باری تعالی ہے :
اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ کردیا الفرقان ( 23 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
یقینا تیری طرف بھی اورتجھ سے پہلے ( کے تمام نبیوں ) کی طرف بھی وحی کی گئي ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرے عمل ضائع ہوجائنگے ، اوریقینا تو نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائے گا الزمر ( 65 ) ۔
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے بھی عصر کی نماز ترک کی اس کے اعمال ضائع ہوگئے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 553 ) ۔
بطل عملہ کا معنی ہے کہ اس کے اعمال باطل ہوگئے اس کا کوئي فائدہ نہیں ہوگا ۔
یہ حدیث اس پردلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالی تارک نماز کا کوئي عمل بھی قبول نہيں کرتا ، لھذا تارک نماز کواس کا کوئي بھی عمل فائدہ نہيں دے گا ، اورنہ ہی اس کا عمل اللہ تعالی کی جانب اٹھایا جاتا ہے ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے معنی میں کہتے ہيں :
حدیث سے ظاہرہوتا ہے کہ نماز ترک کرنے کی دو قسمیں ہیں :
کلی طور پر نماز ترک کرنا اوربالکل کبھی بھی نماز نہ پڑھنا ، اس وجہ سے اس کے سارے اعمال تباہ ہوجاتے ہیں ۔
دوسری قسم یہ ہے کہ کسی معین نماز کو معین دن میں ترک کیا جائے ، اس سے اس دن کے اعمال ضائع ہوجاتے ہيں ۔
لھذا عمومی طور پر اعمال کا ضائع ہونا ترک عام کے مقابلہ میں ہے اورمعین ضیاع ترک معین کے مقابلہ میں ہے ۔ ا ھـ دیکھیں کتاب الصلاۃ صفحہ ( 65 ) ۔
ہم سوال کرنے والی کونصیحت کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کےہاں توبہ کرے اوراپنے کیے پر نادم ہو کہ اس نے اللہ تعالی کے حق میں کوتاہی کی ہے ، اوراپنے آپ کو اللہ تعالی کے غضب اورغصہ وسزا کا سزاوار بنایا ہے ۔
اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتا اوراس کے گناہ معاف کردیتا ہے بلکہ وہ تو اپنے بندے کی توبہ سے بہت زيادہ خوش ہوتا ہے ، اورپھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توبہ کرنے والے کوخوشخبری دی ہے کہ :
( گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہے جیسے اس کا کوئي گناہ نہیں ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 4250 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابن ماجہ ( 3424 ) میں اسے صحیح قراردیا ہے ۔
لھذا غسل اورنماز کی ادائيگي میں جلدی کریں تا کہ ظاہری اورباطنی دونوں طہارتیں جمع ہوسکیں ، اورتوبہ کومؤخر نہ کرے کہ وہ کہتی رہے میں کل یا پھر پرسوں توبہ کرلوں گی ، کیونکہ انسان کو علم نہيں کہ کب اورکہاں اس کی موت آجائے ، لھذا ندامت سے قبل ہی توبہ کرلیں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اوراس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اختیار کی ہوتی ، ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ، اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اورشیطان تو انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے الفرقان ( 27 – 29 ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات