کیا اللہ تعالی ایسے شخص کے روزے قبول فرمائے گا جس کے پاس سودی کاروبار اورسودی بنکوں کے ساتھ بھی معاملہ ہو ، اورکیا وہ سود خور ہے یا نہيں ؟
کیا کبیرہ گناہ روزہ باطل کردیتے ہيں
سوال: 37877
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اے ایمان والو ! اللہ تعالی سے ڈرو اوراگر تم سچے ایمان والے ہو تو جوسود باقی رہ گيا ہے وہ چھوڑ دو البقرۃ ( 278 ) ۔
اللہ تعالی کی جانب سے ندا ہورہی ہے کہ وہ سود چھوڑ دیں اوراس سے اجتناب کریں کیونکہ اللہ تعالی نے سود حرام قراردیا ہے ۔
سود کی حرمت کے بارہ میں اللہ تعالی نے فرمایا :
اللہ تعالی نے خریدوفروخت حلال کی اورسود حرام کردیا ۔
اورسود خوری مسلمانوں کی ذلت وپستی کا ایک سبب ہے ، اس کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح فرمایا :
( جب تم سودی کاروبار کرنے لگوگے اورکھیتی باڑی پرراضي ہوجاؤ گے اوربیلوں کی دمیں پکڑ لوگے اورجہاد کو چھوڑ دو گے تواللہ تعالی تم پر ذلت وپستی مسلط کردے گا اسے اس وقت تک تم سے دور نہيں کرے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہيں آؤ گے ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3462 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے سلسلۃ الصحیحۃ ( 11 ) میں صحیح قرار دیا ہے ۔
سودی بنکوں سے تعاون اورمعاملات کرنے کے بارہ میں سوالات کے جوابات کی تفصیل کے لیے آپ مندرجہ ذيل سوالات کے جوابات کا مطالعہ کریں سوال نمبر ( 8590 ) اور ( 4714 ) ۔
اورگناہ کبیرہ ( مثلا سودی بنک میں اکاؤنٹ حاصل کرنا) کے مرتکب کے روزہ کے بارہ میں ہم یہ کہيں گہ کہ اس کا روزہ توہوجائے گا لیکن وہ ناقص ہے اوریہ بھی ہوسکتا ہےکہ اسے روزے کا اجروثواب ہی حاصل نہ ہو ۔
آپ اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان پر غوروفکرتوکریں :
اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح کہ پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو ۔
اللہ تعالی نے اس آيت میں روزے فرض کرنے کی حکمت بیان فرمائی ہے کہ واجبات اداکرنے اورحرام کردہ کاموں سے اجتناب کے ساتھ تقوی و پرہیزگاری کا وسیلہ ہے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
( جوبھی قول زور اوراس پر عمل کرنا نہيں چھوڑتا تو اللہ تعالی کو کوئي ضرورت نہيں کہ وہ بھوکا اورپیاسا رہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1903 ) ۔
یعنی اللہ تعالی روزہ رکھنے سے یہ نہیں چاہتا کہ ہم کھانا پینا چھوڑيں بلکہ اللہ تعالی تو یہ چاہتا ہے کہ ہم اللہ تعالی کا تقوی اختیار کریں کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا تا کہ تم تقوی وپرہيزگاری اختیارکرو ۔
دیکھیں : الشرح الممتع ( 6 / 435 ) ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
قولہ ( قول زور اوراس پر عمل کرنا نہ چھوڑے ) قول زور سے جھوٹ اورجوکچھ اس کا تقاضہ مراد ہے ۔
ابن عربی کا کہنا ہے کہ :
اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ جو بھی مذکورہ اعمال کرے گا اسے روزے کا اجروثواب حاصل نہيں ہوگا ، اوراس کا معنی یہ ہے کہ روزے کا اجروثواب قول زوروغیرہ کے موازنہ میں نہیں ہوگا بلکہ اس سے کم ہوگا ۔
بیضاوی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
روزے کی مشروعیت سے بھوک اورپیاس مراد نہیں بلکہ اس کی وجہ سے جو شھوات میں کمی اورنفس امارۃ کو نفس مطمئنۃ کے مطیع کرنا مراد ہے ، لیکن اگر یہ سب کچھ حاصل نہ ہو تو پھراللہ تعالی ایسے شخص کی طرف قبولیت کی نظر سے نہيں دیکھے گا ۔
اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ ان افعال کی بنا پر روزے کے اجروثواب میں کمی ہوجاتی ہے ۔ انتھی ۔ فتح الباری سے لیا گيا ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب