کیا خواتین دفاعی تربیت کی مشق کر سکتی ہیں؟ اس کا کیا حکم ہے؟ اس میں سے کچھ صرف جسمانی وزن پر انحصار کرتے ہیں، جیسے (pull-ups) لٹک کر اپنے جسم کو بازوؤں کے زور سے اٹھانا، (push-ups)ڈنڈ نکالنا، (squats) بیٹھک لگانا، (planks) پنجوں اور کہنیوں کے بل زمین پر لیٹ کر اپنا جسم اٹھا کر اکڑا لینا وغیرہ۔ اور اس میں سے کچھ اضافی وزن کے ساتھ ڈمبل اور باربل اور رسہ کودنا وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ سب عورتوں کے لیے جائز نہیں؟ یا اس میں سے کچھ جائز ہے؟ یا عورتوں کے لیے سب جائز ہے؟ براہ کرم نوٹ کریں کہ ایسے ماہرین موجود ہیں جو مرد و خواتین دونوں کے لیے اس قسم کی تربیت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، کیوں کہ اس سے پٹھوں کے لیے صحت اور جسم کے لیے تندرستی کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
کیا خواتین دفاعی تربیت کی مشق کر سکتی ہیں؟
سوال: 379033
جواب کا خلاصہ
مسلم خواتین کے لیے ورزش بشمول دفاعی مشقیں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ان میں تفصیلی جواب میں مذکور شرائط پائی جائیں، ان کے مطالعہ کے لیے آپ مکمل جواب ملاحظہ کریں۔
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
“دفاعی مشقیں کیا ہیں؟ دفاعی مشقیں مخصوص قسم کی جسمانی سرگرمیاں ہیں جو کہ پٹھوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں، کیونکہ یہ کسی ایک پٹھے یا متعدد پٹھوں کے مجموعہ کو ان پر لگائی جانے والی قوت کے خلاف مزاحمت اور دفاع کرنے کی تربیت دیتی ہے۔”
مزاحمتی اور دفاعی تربیت سے مراد کوئی بھی ایسی ورزش ہے جو پٹھوں کو سکڑنے اور کھینچنے کے لیے کی جاتی ہے، جس سے ان کی طاقت، سائز اور برداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔
دوم:
خواتین کے ورزش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشمول مزاحمتی اور دفاعی مشقیں، جب تک کہ درج ذیل شرائط پوری ہوں:
پہلی شرط: ایسا کسی محفوظ جگہ پر کیا جائے جہاں مرد خواتین کو نہ دیکھ سکیں، کیونکہ عورتوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے جسم کو غیر محرم مردوں کے سامنے ایسے کپڑوں سے ڈھانپیں جو جسم کو نظر نہ آنے دیں اور اعضاء کی ساخت واضح نہ کریں۔ اسی طرح ورزش کرتے ہوئے جسم تھرکتا ہے، لیٹنا بھی پڑتا ہے، اسی طرح نسوانی حسن والے اعضا نمایاں کرنے پڑتے ہیں۔ تو مذکورہ امور پر مشتمل ورزش یا صرف ایسی ورزش جس سے چھاتی اور پنڈلیوں وغیرہ سے کپڑا ہٹ جاتا ہے وہ محرم مردوں کے سامنے کرنا بھی منع ہے ۔ کیونکہ عورت کے لیے محرم کے سامنے سر، چہرہ، گردن، بازو اور پاؤں کے علاوہ کسی چیز کو ننگا کرنا جائز نہیں ہے۔
دوسری شرط : ستر والے حصے کو دوسری عورتوں کے سامنے ڈھانپ کر رکھے، خواتین کے لیے آپس میں “ستر” ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ہے۔ اس لیے عورت کے لیے ماں یا بہن کے سامنے اپنی ران کو ننگا کرنا جائز نہیں۔
مسلم (388) نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی مرد دوسرے مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو دیکھے۔)
امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں کہا ہے:
“اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کے لیے دوسرے مرد کے ستر کو دیکھنا اور عورت کے لیے دوسری عورت کے ستر کو دیکھنا حرام ہے۔ اس بارے میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔”
تیسری شرط: ورزش سے عورت کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچاؤ اور نہ ہی دوسروں کو نقصان دو) مسند احمد، 2865 اور ابن ماجہ، 2341 نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی نے صحیح ابن ماجہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
چوتھی شرط: ورزش میں مصروف ہونے کی وجہ سے عورت کی فرائض جیسے کہ نماز، شوہر اور والدین کے حقوق کی ادائیگی وغیرہ سے توجہ نہ ہٹے۔
اس کے علاوہ اور بھی شرائط ہیں جو پہلے سوال نمبر (115676) کے جواب میں بیان ہو چکی ہیں۔
آپ نے جن مشقوں کا ذکر کیا ہے، (pull-ups) لٹک کر اپنے جسم کو بازوؤں کے زور سے اٹھانا، (push-ups)ڈنڈ نکالنا، (squats) بیٹھک لگانا، (planks) پنجوں اور کہنیوں کے بل زمین پر لیٹ کر اپنا جسم اٹھا کر لکڑی کی تختی کی طرح اکڑا لینا وغیرہ۔ اور وزن اٹھاتے ہوئے ڈمبل اور باربل کا استعمال یا رسہ کودنا وغیرہ میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ اوپر بتائی گئی ہدایات پر توجہ دی جائے اور ورزش اس طرح سے کی جائے کہ جس کے نتیجے میں نقصان نہ ہو۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے لڑکیوں کے کھیلوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے جواب دیا:
“لفظ کھیل میں بہت سے کھیل آتے ہیں اور ہر کھیل کی ماہیت کے اعتبار سے اس کا حکم لڑکیوں کے الگ سے ہو گا، چنانچہ لڑکیوں کے لیے وہی کھیل اور ورزش کرنا جائز ہو گاجو شرعی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں، مثلاً: خواتین کے لیے بنائی گئی مخصوص جگہ پر پیدل چلنا جہاں مرد موجود بھی نہ ہوں اور انہیں دیکھ بھی نہ سکیں، اسی طرح گھر کے سوئمنگ پول میں تیراکی کرنا، یا بچیوں کے مخصوص اسکول میں تیراکی کرنا جہاں انہیں مرد نہ دیکھ رہے ہوں ، نہ ہی مردوں کے ساتھ ان کا واسطہ ہو تو یہ منع نہیں ہے۔
جبکہ ایسے کھیل جس میں مرد و خواتین کے درمیان اختلاط پایا جائے، یا عورتوں کو مرد دیکھیں ، یا مسلمانوں کے لیے کسی آزمائش کا باعث بنیں تو یہ جائز نہیں ہے۔
اس لیے کھیل اور ورزش کے بارے میں تفصیل بیان کرنا ضروری ہے کہ: خواتین کے لیے جائز ورزش وہ ہے جس میں کوئی ایسی چیز شامل نہ ہو جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو، اور نہ ہی اس میں مردوں کے ساتھ اختلاط ہو ، بلکہ باپرد جگہ میں مرد و زن کے اختلاط سے دور تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے اس میں دوڑ یا تیراکی وغیرہ کی جائے، جی ہاں اسی طرح ان کے آپس میں مقابلے بھی کروائے جا سکتے ہیں۔” ختم شد
فتاوی نور علی الدرب، از الشیخ ابن باز رحمہ اللہ
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات