میں 15 سالہ نوجوان لڑکی ہوں اور مڈل اسکول کی طالبہ ہوں، آپ جانتے ہیں کہ ہمارے اسکول میں بھی دیگر اسکولوں کی طرح (physical education) فزیکل ایجوکیشن شامل نصاب ہے، اس کے لیے ہم باسکٹ بال، ہینڈ بال، والی بال، دوڑ، اور لمبی چھلانگ پر مشتمل کھیل کھیلتے ہیں، ہمارے پاس یہی کھیل میسر ہیں، تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی مسلمان لڑکی کھیلوں میں حصہ لے سکتی ہے؟ اسی طرح میرا ایک اور سوال بھی ہے امید کرتی ہوں کہ آپ اس کا بھی جواب دیں گے، وہ یہ ہے کہ میں اپنے اسکول کے باسکٹ بال کلب کی ممبر بھی ہوں، ہمیں ایک استاد اس کی تربیت دیتے ہیں، اور فروری کے مہینے میں ہمارے مقابلے شروع ہو جاتے ہیں اس کے لیے ہم شہر سے 30 کلومیٹر دور ایک بس میں اکٹھے جاتے ہیں جن میں ڈرائیور، دو استاد، اور شرکت کرنے والی دیگر لڑکیاں شامل ہوتی ہیں، کبھی اسکول کے لڑکے بھی اسی گاڑی میں سوار ہوتے ہیں، ایسی صورت میں ہم پیچھے بیٹھتی ہیں اور لڑکے استاد کے ہمراہ آگے، ڈرائیور تو ہوتا ہی آگے ہے، تو میرا سوال یہ ہے کہ میں باسکٹ بال کلب کی ممبر رہوں یا چھوڑ دوں؟ میں امید کرتی ہوں کہ آپ جلد از جلد جواب دیں گے، میں یہ چاہتی ہوں کہ دینی احکامات پر عمل پیرا رہوں، ساتھ میں یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو اس نہایت مفید ویب سائٹ چلانے پر بہترین جزا سے نوازے۔
خواتین کا کھیلوں میں حصہ لینے کے ضوابط، شروط اور خطرات
سوال: 115676
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
کھیل کے جسمانی اور ذہنی صحت پر نہایت مفید اثرات ہوتے ہیں یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، لیکن آج کل کھیل کا ایک خاص مفہوم مراد لیا جاتا ہے، اس لیے کھیل کے لیے بھی شرعی اصول و ضوابط مقرر ہونا لازم ہو گیا ہے، چنانچہ ان اصولوں کو مد نظر رکھا جائے تو کھیل جائز ہوں گے، اور اگر کوئی لڑکی ان اصولوں کو توڑ دے تو اس کے لیے کھیل حرام ہو گا، وہ ضوابط درج ذیل ہیں:
1-لڑکیوں کا کھیل مردوں کی آنکھوں سے بالکل دور ہو، کوچ، یا استاد، یا طلبہ، یا مدیر، یا تماشائی کسی بھی طرح سے مرد کھیل کے میدان میں موجود نہ ہوں، اس شرط کو پورا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ لڑکیوں کے کھیل کی عکس بندی بھی نہ کی جائے تا کہ مردوں کے لیے ویڈیو بھی دیکھنے کے لیے دستیاب نہ ہو، اگر ویڈیو بنائی گئی تو کھیل کے جواز کی بنیادی شرط معدوم ہو جائے گی۔
اس لیے خواتین کے لیے افضل، اچھا اور محتاط عمل یہ ہے کہ گھر میں کھیلنے کا اہتمام کریں، اس کے لیے کسی بھی کلب یا ہال اور اسکولوں میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، چاہے یہ جگہیں اختلاط سے محفوظ ہوں تب بھی یہ جگہیں خواتین کے لیے کھیل کی مناسب جگہ نہیں ہیں؛ کیونکہ کسی نہ کسی شیطان کو خواتین کی ویڈیو بنانے کا موقع مل سکتا ہے، اور اس کے نتیجے میں غیر مرغوب نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔ اور اگر ان جگہوں میں مرد و زن دونوں مخلوط ماحول میں ہوں تو ممانعت کی وجہ واضح ہے، جیسے کہ ہم بیان بھی کر چکے ہیں۔
2-دوران کھیل لباس با پردہ ہو، اس لیے کسی بھی لڑکی کو نہ ہی اس کے ساتھ کھیلنے والی کسی اور خاتون کھلاڑی کے لیے یہ جائز ہے کہ مختصر لباس پہنے، یا شفاف یا تنگ لباس پہنے، یہ شرائط خواتین کے لیے ہر جگہ پر ہیں یعنی مردوں کے سامنے بھی اور عورتوں کے سامنے بھی ایسا لباس زیب تن مت کرے۔ یہاں اس بات پر متنبہ کرنا مناسب ہو گا کہ مرد و خواتین کے جتنے بھی کھیل ہیں ان سب میں یہ شرط مفقود ہے، جیسے کہ تیراکی، ریسلنگ، فٹ بال، والی بال، باسکٹ بال اور جمناسٹک وغیرہ میں پایا جاتا ہے، لباس کی یہ شرط مرد اور خواتین سب کے لیے یکساں ہے، لیکن کھیل مردوں کا ہو یا خواتین کا ہر دو صورت میں یہ شرط مفقود ہوتی ہے۔
3- کھیل میں کسی قسم کا جوا اور شرط نہیں ہونی چاہیے۔
4- کھیل کی وجہ سے لڑائی جھگڑا اور باہمی بغض نہ ہو، یہ صورت حال عام طور پر ایسے ملکوں اور اقوام کے درمیان ہوتی ہے جو باہمی علیحدگی کے لیے اپنی جغرافیائی تقسیم پر بھی اکتفا نہیں کرتیں بلکہ کسی ایک ٹیم کی سپورٹ کرنے کی وجہ سے دوسری ٹیم کے سپورٹروں کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرتی ہیں۔
5-کھیل یا پریکٹس کے دوران موسیقی نہ چلائی جائے۔
6-خواتین کھلاڑی اپنے بال، لباس اور نام کسی کافرہ خاتون جیسا مت رکھیں؛ کیونکہ ہمیں کافروں کی مشابہت سے ہمیں عمومی طور پر روکا گیا ہے۔
7-کھیل ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جس میں لڑتے ہوئے چہرے یا سر پر مارا جائے، اسی طرح کھیل میں کفریہ مراسم بھی نہیں ہونے چاہییں، مثلاً: کچھ کھیلوں سے قبل لوگ ایک دوسرے کے سامنے جھکتے ہیں۔
اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو پھر خواتین کھیل میں حصہ لے سکتی ہیں، تاہم اس کے باوجود ہم اپنی مسلمان بہنوں کو مشورہ دیں گے کہ اپنے آپ کو ایسے کاموں سے بچائیں، اور اپنا وقت ضائع مت کریں، اور یہ یقینی بات ہے کہ عورت کو تحفظ تبھی حاصل ہو گا جب خاتون اللہ تعالی کے احکامات کی پاسداری کرے گی، اور ان سب احکامات میں سے سب اہم ترین حکم یہ ہے کہ: خواتین اپنے گھروں میں رہیں، بلا ضرورت گھر سے مت نکلیں، اور اللہ تعالی کے فرمان: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ ترجمہ: اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو۔ [الاحزاب: 33] کی تعمیل کریں۔
مذکورہ بالا شرائط کی مزید تفصیلات سوال نمبر: (95280 ) ، (78223 ) ، (22963 ) اور (20198 ) کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔
نیز مسلمان خواتین کو چاہیے کہ ان کے لیے مختص جگہوں میں کھیل کے دوران ان شرائط پر عمل درآمد کے لیے اپنا کردار ادا کریں کہ کوئی مرد انہیں دیکھ یا جھانک نہ پائے۔
لیکن ان شرائط پر اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں عمل ممکن نہیں ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اسکولوں میں (physical education) فزیکل ایجوکیشن شامل نصاب کرنے سے بے پردگی، بے حیائی، اور انحطاط میں اضافہ ہوا ہے، پھر اس سے بڑی مشکل تب ہوتی ہے جب کوچ کوئی مرد ہو، یا انتظامیہ مردوں پر مشتمل ہو، پھر یہ معاملہ بڑھتا ہوا بہت آگے تک چلا گیا ہے ۔ اور بہت سے عربی اور اسلامی ممالک میں اس صورت حال پر افسوس ہوتا ہے۔
الشیخ عبد الکریم الخضیر حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
لڑکیوں کے اسکولوں میں (physical education) فزیکل ایجوکیشن کی ایسی سرگرمیوں کو شامل نصاب کرنے کا کیا حکم ہے جو شریعت اسلامیہ سے متصادم نہیں ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"بچیوں کے اسکولوں میں (physical education) فزیکل ایجوکیشن کو لازم کرنا شیطانی پیروی ہے، اور ہمیں شیطان کی پیروی سے روکا گیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلالاً طَيِّباً وَلا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ
ترجمہ: لوگو! جو کچھ زمین میں حلال اور پاکیزہ ہے اسے کھاؤ اور شیطانی قدموں کے پیچھے مت چلو، یقیناً وہ تمہارا واضح دشمن ہے۔ [البقرۃ: 168]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ اور شیطانی قدموں کی پیروی نہ کرو؛ یقیناً وہ تمہارے لیے واضح دشمن ہے۔ [البقرۃ: 208]
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ
ترجمہ: جانوروں میں سے بھی بار بردار اور سواری والے بنائے، اللہ نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطانی قدموں پر نہ چلو، یقیناً وہ تمہارا واضح دشمن ہے۔[الانعام: 142]
ایسے ہی فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر
ترجمہ: اے ایمان والو! شیطانی قدموں کے پیچھے مت چلو، کیونکہ جو بھی شیطانی قدموں کے پیچھے چلتا ہے تو وہ اسے بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔[النور: 21]
پھر اللہ تعالی نے ہمیں واضح طور پر یہ بتلا دیا ہے کہ شیطان ہمارا دشمن ہے، اور ہمیں بھی اللہ تعالی نے یہی حکم دیا کہ ہم اسے اپنا دشمن ہی سمجھیں، اس لیے کہ شیطان آدم کی اولاد کو گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، بلکہ شیطان نے تو اللہ تعالی کی عزت کی قسم اٹھا کر کہا ہے کہ میں انسانوں کو ضرور گمراہ کروں گا، اللہ تعالی نے اسی کی بات ذکر بھی کی ہے کہ شیطان نے کہا:
فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ
ترجمہ: تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو ضرور گمراہ کروں گا۔ [ص: 82] "
مذکورہ کھیلوں کے نام پر شیطان نے کیا کچھ کروایا ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ لوگوں کے درمیان عداوت، بغض، اور اللہ کی عبادت سے غفلت وغیرہ کسی سے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک نے جب اللہ تعالی کے حکم سے تجاوز کیا اور شیطانی قدموں پر چل نکلے تو جو کچھ ہوا وہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ پہلے قدم میں خواتین کو خواتین کے ماحول میں مکمل پردے کا ماحول پیش کیا گیا، پھر آہستہ آہستہ ان شرائط سے پیچھے ہٹتے چلے گئے اور اب صورت حال ایسی ہے کہ دیندار مسلمان کو چھوڑیں کوئی بھی غیور اور عقل مند مسلمان بھی اس حالت کو دیکھ کر خوش نہیں ہے۔ اسلام میں مردوں کے ذمے ہے کہ گھر سے باہر کی ساری ذمہ داریاں اٹھائیں تو دوسری طرف عورتوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھروں میں رہیں، اور نسل نو کی دین، اخلاقیات، اچھی عادات اور اسلامی آداب کی روشنی میں تربیت کریں۔
سوال میں مذکور مسئلے کے بارے میں مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ لڑکیوں کے اسکولوں میں کھیل حرام ہے؛ کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں جو کہ کسی بھی صاحب عقل و خرد کے لیے مخفی نہیں ہیں، نہ ہی اسے (physical education) فزیکل ایجوکیشن کے نام پر لاگو کرنے کا مطالبہ کرنا جائز ہے۔" ختم شد
" فتاوى الشيخ عبد الكريم الخضير " ( 1 / 21 , 22 ) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق
محترمہ سائلہ سے گزارش ہے کہ ہماری ویب سائٹ پر درج ذیل سوالات کا بھی مطالعہ کرے: (82392 )، (1200 ) اور (79549 )۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات