ایک شخص بچپن سے ہی جھوٹ بولنےکا عادی ہے ، اوراب کوشش کرتا ہے کہ اس عادت کو ترک کردے لیکن پھربھی بھول کر جھوٹ بول جاتا ہے اوربعد میں اللہ تعالی سے استغفار بھی کرتا ہے ، توکیا یہ اس کے روزے پر اثر انداز تونہيں ہوگا ؟
روزہ کی حالت میں جھوٹ
سوال: 37989
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
امام بخاری اورمسلم رحمہ اللہ تعالی نے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جوکوئي قول زور اوراس پر عمل کرنا اورجہالت نہ چھوڑے اللہ تعالی کو اس کے بھوکا اورپیاسا رہنے کی کوئي ضرورت نہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1903 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 6057 ) ۔
قول زور سے ہر باطل قول مراد ہے جو جھوٹ ، غیبت ، چغلی اورجھوٹی گواہی پرمشتمل ہو اورہرحرام بات بھی اسی میں شامل ہے ۔
اور العمل بہ سے مراد ہے کہ اس غلط اورفحش قول وفعل پر عمل کرنا اوربرائي سے باز نہ آنا ۔ دیکھیں : تحفۃ الاحوذی
والجھل : سے مراد ہے کہ معصیت اورگناہ کے کام کرنا ، ابن ماجہ کے حاشیہ میں سندی رحمہ اللہ تعالی نے اس سے یہی مراد لیا ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ( اللہ تعالی کو اس کے بھوکے اورپیاسے رہنے کی کوئي ضرورت نہيں ) ۔
ابن بطال کہتے ہیں کہ اس کا یہ معنی نہيں کہ اسے یہ کہا جائے کہ تم روزہ ہی ترک کردو ، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ قول زور اوراس پرعمل سے بچا جائے ، جوکہ روزہ قبول نہ ہونے سے کنایہ ہے ۔۔
توجوشخص قول زورترک نہیں کرتا اوراس پر عمل پیرا رہتا ہے اس کا روزہ مردود ہے ۔۔۔
ابن عربی کہتے ہيں :
اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ جوکوئي بھی مذکورہ افعال کرے اسے روزے کا کوئي اجر وثواب نہيں دیا جائے گا ، اس کا معنی یہ ہے کہ روزے کا اجروثواب قول زور اورفحش گوئی کے گناہ سے موازنہ نہیں کرے گا اس سے کم ہوجائےگا ۔ ا ھـ
اس کا مقصد یہ ہے کہ ہر قسم کی برائي روزے پر اثرانداز ہوتی جس کی وجہ سے اس کے اجروثواب میں کمی اورنقص پیدا ہوجاتا ہے ، اوربعض اوقات جب معاصی زيادہ ہوجائيں تو اس کا ثواب بالکل ہی ختم ہوجاتا ہے ۔
ہمارے بھائی اس لیے آپ اس قبیح اوربری عادت کو ترک کرنے کی کوشش کریں ، جب بھی آپ سے کوئي گناہ سرزد ہوجائے اللہ تعالی سےاستغفار کریں ، کیونکہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کا کوئي گناہ نہ ہو ۔
اللہ تعالی ہمیں اورآپ کو اپنے پسندیدہ اوررضامندی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب