میں نے ہاسپٹل میں چیک اپ کروانا ہے اوراس کے لیے روزہ چھوڑنا ضروری ہے ، اگرمیں اب چیک اپ نہيں کرواتا تومجھے کچھ ماہ بعد وعدہ ملے گا ، توکیا میرے لیے اس چیک اپ کے لیے روزہ افطار کرنا جائز ہے ؟
کیا چیک اپ کے لیے رمضان کا روزہ چھوڑنا جائز ہے
سوال: 38532
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مریض کے لیے روزہ افطار کرنا جائز ہے ، اورجتنے ایام وہ روزہ نہيں رکھے گا اس کی قضاء میں اتنے ہی یوم بعد میں روزے رکھے گا ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورجوبھی مریض ہویا سفر پر ہو وہ دوسرے دنوں میں اس گنتی کو پورا کرے البقرۃ ( 185 ) ۔
جس مرض کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز ہے وہ مرض ہے جس کی وجہ سے روزہ دار کومشقت یا پھر ضرر پنہچے اوروہ مرض شدید قسم کی ہو یا پھر مرض کے زيادہ ہونے کا خدشہ ہو یا روزہ کی وجہ سے بیماری سے شفایابی میں تاخیر ہونے کا خطرہ پایا جائے ، اورعلماء کرام نے اس کے ساتھ یہ بھی ملحق کیا ہے کہ اگر روزے کی وجہ سے مرض پیدا ہونے کا خدشہ ہوتو پھر بھی روزہ افطار کرسکتا ہے ۔
لھذا اگر آپ کا مرض بھی ان امراض میں شامل ہوتا ہے توآپ کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے ، کیونکہ ایکسرے یا سکیننگ مرض کی تشخیص کے لیے ہوتی ہے جس کی وجہ سے مرض کی زيادتی نہيں ہوگی اورشفایابی میں بھی تاخیر نہیں ہوگی ۔
لیکن اگر آپ کا مرض ان اقسام میں شامل نہيں ہوتا توپھرایسی حالت میں آپ کےلیے روزہ افطار کرنا جائز نہيں ، بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ ایکسرے یا سکیننگ رات کے وقت کروالیں ، یا پھر رمضان کے ختم ہونے کا انتظارکریں۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
مریض کی تین حالتیں ہیں :
پہلی حالت :
اسے روزہ نہ تو ضرر پہنچائے اورنہ ہی مشقت دے ، لھذا اس کے لیے روزہ رکھنا واجب ہے کیونکہ اس کا کوئي عذر نہيں ۔
دوسری حالت :
روزہ اسے مشقت میں ڈالے اورضرر نہ پہنچائے ، اس کے لیے روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ روزہ رکھنے میں اللہ تعالی کی رخصت قبول کرنے سے انکار اوراپنے آپ پرمشقت ہے ۔
تیسری حالت :
یہ کہ مریض کوروزہ نقصان اورضرر پہنچائے ، لھذا اس پر روزہ رکھنا حرام ہے کیونکہ اس میں اپنے آپ کونقصان پہنچانا ہے ، اوراللہ تعالی کا فرمان ہے :
اپنے آپ کوقتل نہ کرو یقینا اللہ تعالی تمہارے ساتھ رحم کرنے والا ہے
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔
اورحدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( نہ کسی کو نقصان دو اورنہ ہی خود نقصان اٹھاؤ ) سنن ابن ماجہ ، مستدرک حاکم ، امام نووی کا کہنا ہے کہ اس کے اوربھی کئي طریق ہیں جوایک دوسرے کو قوی کرتے ہيں ۔
مریض کوروزے کے ضررکا علم یا تو اس کے احساس ضررہے ہوگا یا پھر کسی ماہر ڈاکٹر کے بتانے سے کہ روزہ رکھنے سے اسے نقصان ہوگا ۔
جب مریض روزہ چھوڑے تو شفایاب ہونے کے بعد اسے چھوڑے ہوئے روزے رکھنا ہوں گے ، اور اگر شفایابی سے قبل ہی مریض فوت ہوجائے تواس کے قضاء کی وجہ سےاس سے ساقط ہوجائےگا کیونکہ اس پرفرض تودوسرے دنوں کی گنتی میں روزے رکھنے تھے لیکن وہ انہیں پاہی نہیں سکا ۔
فصول فی الصیام والتراویح ( الفصل الثالث ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب