فلسطين ميں ميرى جائداد ہے، اور كرايہ داروں نے مسلسل تين برس سے كرايہ ادا نہيں كيا، كيونكہ اس وقت چلنے پھرنے اور دوسرى پاپندياں ہيں اس كى بنا پر ان كے پاس كام نہيں جس سے وہ روزہ مرہ كى ضروريات پورى كر سكيں … الخ
اسى طرح ميرى ايك عمارت فارغ ہے اور كرايہ پر نہيں، تو كيا اس جائداد پر آمدنى نہ ہونے كے باوجود ميرے ذمہ اس كى زكاۃ ادا كرنا واجب ہے ؟ يا كہ كرايہ داروں كے حالت درست ہونے اور ان سے كرايہ وصول ہونے تك اس ميں تاخير كرنى ممكن ہے ؟
كرايہ دار غريب ہونے كى بنا پر كرايہ ادا نہيں كرتے لہذا وہ زكاۃ كيسے ادا كرے ؟
سوال: 38577
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ فلسطين وغيرہ ميں ہمارے بھائيوں كى دشمنوں كے مقابلہ ميں مدد فرمائے اور دشمنوں كو شكست اور ذلت و رسوائى دے، اور مسلمانوں پر امن و سكون نازل فرمائے اور انہيں زمين ميں استقرار عطا كرے.
اے اہل فلسطين صبر كرو، اے كمزور اور بے آسرا صبر سے كام لو، كيونكہ اللہ تعالى كى مدد ضرور اور لامحالہ آئے گى:
” كيونكہ مدد صبر سے ہى ملتى ہے “
صحيح الجامع حديث نمبر ( 6806 ).
رات جتنى بھى لمبى ہو جائے بالآخر اس نے ختم ہونا ہے، اور رات كے سياہ اندھيروں كے بعد فجر كى روشنى اور پو ضرور پھوٹنى ہے.
دوم:
زمين اور مكانات، اور دوكانيں وغيرہ كى جائداد ميں زكاۃ نہيں ہے، ليكن جب يہ تجارت كے ليے ہوں تو پھر اس ميں زكاۃ ہو گى، دوسرے معنوں ميں اس طرح كہ اس نے يہ جائداد اس ليے بنائى اور خريدى ہے كہ وہ اسے فروخت كر كے منافع حاصل كرے تو اس ميں زكاۃ ہو گى.
اور وہ جائداد جو مالك نے كرايہ پر دے ركھى ہے اس ميں زكاۃ نہيں، بلكہ زكاۃ اس كے كرايہ اور اجرت ميں ہے جب كرايہ نصاب كو پہنچے اور اس پر سال مكمل ہو جائے تو پھر زكاۃ ہو گى وگرنہ نہيں.
اور زكاۃ كا نصاب پچاسى گرام سونا، يا پانچ سو پچانوے ( 595 ) گرام چاندى كے برابر ہے.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 2795 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
جب كرايہ داروں كے پاس كرايہ كى رقم اگر چاندى يا سونے كے نصاب كو پہنچتى ہو اور نصاب كے بعد سال مكمل ہو جائے تو تنگ دست مقروض كے پاس قرض پر زكاۃ ميں علماء كرام كا اختلاف ہے.
اس ميں كئى ايك اقوال ہيں:
اول:
اس ميں زكاۃ واجب نہيں ہے.
قتادۃ، اسحاق، ابو ثور، ابن حزم، اور امام احمد سے ايك روايت اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے، كيونكہ اسے نفع حاصل كرنے كى قدرت نہيں ہے.
ديكھيں: المحلى ( 4 / 221 ) الانصاف ( 3 / 18 ) الاختيارات ( 98 ).
دوم:
جب وہ رقم حاصل كر لے تو اس وقت سب برسوں كى زكاۃ ادا كرے گا.
يہ قول ثورى، ابو عبيد، اور شافعيہ اور حنابلہ كا مذہب ہے، انہوں نے على رضى اللہ تعالى عنہ كے اس قول سے استدلال كيا ہے جو قرض واپس ملے يا نہ ملنے والے قرض ميں كہا تھا:
” اگر تو وہ سچا ہے تو وہ اسے وصول كرنے كے بعد سب سالوں كى زكاۃ ادا كر دے ”
مصنف عبد الرزاق حديث نمبر ( 7116 ).
ديكھيں: المجموع ( 6 / 16 ) المغنى ( 2 / 345 ) الانصاف ( 3 / 22 ).
سوم:
وصولى كے بعد صرف ايك برس كى زكاۃ ادا كرے.
يہ عمر بن عبد العزيز، حسن، اور ليث، اور اوزاعى رحمہ اللہ تعالى كا قول اور امام مالك كا مسلك ہے، جيسا كہ موطا ميں ہے:
” قرض كے جس معاملہ ميں ہمارے ہاں اختلاف نہيں وہ يہ ہے كہ قرض كا مالك قرض واپس لينے كے بعد اس كى زكاۃ ادا كرے گا، چاہے وہ مقروض كے پاس كئى برس رہے، اور پھر مالك اسے وصول كر لے تو اس پر صرف ايك بار زكاۃ واجب ہو گى ”
ديكھيں: موطا ( 1 / 253 ) اور الكافى لابن عبد البر ( 1 / 93 ).
اور اس تيسرے قول پر ہى مستقل فتوى كميٹى نے فتوى جارى كيا ہے فتوى ميں ہے كہ:
اور اگر ( قرض ) كسى ايسے شخص پر ہو جو تنگ دست ہے تو قرض كى وصولى كے بعد ايك سال كى زكاۃ ادا كرے گا، چاہے اس پر كئى برس گزر چكے ہوں، امام احمد رحمہ اللہ سے ايك روايت اور امام مالك رحمہ اللہ تعالى كا قول يہى ہے، اور شيخ عبد الرحمن بن حسن رحمہ اللہ تعالى نے يہى فتوى ديا ہے، اور ان كا كہنا ہے كہ: اور شيخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ تعالى كا يہى اختيار ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 190 ).
اور اسى طرح شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے اسے راجح قرار ديتے ہوئے كہا ہے:
” اور اگر تنگ دست پر قرض ہو تو صحيح يہ ہے كہ اس ميں زكاۃ واجب نہيں؛ كيونكہ اس رقم كا مالك شرعى طور پر اسے مطالبے كا حق نہيں، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ تنگ دست ہو تو اسے اس كى آسانى تك مہلت دى جائے اور تم صدقہ كر دو تو تمہارے ليے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو.
اور شرعى طور پر اپنے مال سے عاجز شخص كى يہى حقيقت ہے، تو اس مال ميں اس پر زكاۃ واجب نہيں، ليكن جب وہ اسے وصول كر لے تو اس كے ايك برس كى زكاۃ ادا كرے گا، چاہے وہ مقروض كے پاس دس برس بھى رہا ہو؛ كيونكہ اس قرض كى وصولى زمين سے حاصل ہونے والے كے مشابہ ہے جس كے حصول كے وقت زكاۃ ادا كى جاتى ہے.
اور بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ: وہ پچھلے برسوں كى زكاۃ نہيں دے گا بلكہ نيا سال شروع كرے گا، اور جو ہم نے بيان كيا ہے اسى ميں زيادہ احتياط اور برى الذمہ ہے كہ پچھلے برسوں ميں سے ايك برس كى زكاۃ ادا كرے، اور پھر اس سے سال كا آغاز كرے، اور اس ميں معاملہ آسان ہے، اور انسان كے ليے قرض كى وصولى سے نااميد ہونے كے بعد وصول ہونے كى شكل ميں اڑھائى فيصد زكاۃ ادا كرنا كوئى مشكل نہيں، يہ تو اس كے حصول جيسى نعمت پر اللہ تعالى كا شكر ادا كرنا ہے” انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين ( 18 / 28 ).
جواب كا خلاصہ:
آپ كے پاس جو جائداد ہے اس ميں كوئى زكاۃ نہيں، چاہے وہ كرايہ پر ہے يا خالى پڑى ہے، بلكہ اس كى اجرت پر زكاۃ ہو گى اور وہ بھى اس وقت جب اجرت نصاب كو پہنچے اور اس پر سال مكمل ہو جائے، اور وہ كرايہ جو كرايہ داروں كے پاس ہے جب نصاب كو پہنچ جائے تو وصولى كے وقت صرف ايك برس كى زكاۃ ادا كريں، چاہے اسے كئى برس بيت چكے ہوں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات