میں روزے نہیں رکھتا توکیا روزقیامت مجھے عذاب ہوگا ؟
رمضان المبارک میں بغیر کسی عذر روزہ نہ رکھنے کی سزا
سوال: 38747
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
رمضان المبارک اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے جس پر اسلامی عمارت قائم ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ رمضان کے روزے جس طرح پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے امت اسلامیہ پر بھی فرض کيے گئے ہیں اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا :
اے ایمان والو تم پرروزے رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو البقرۃ ( 183 ) ۔
اورایک مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اورجس میں ھدایت اورحق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں ، تم میں جوشخص اس مہنیہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیۓ ، ہاں جو بیمار ہویا مسافر ہواسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنی چاہیے ، اللہ تعالی کا تمہارے ساتھ آسانی کرنے کا ارادہ ہے سختی کا نہیں ، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اوراللہ تعالی کی دی ہوئي ہدایت پر اس کی بڑائياں بیان کرو اوراس کا شکر کرو البقرۃ ( 185 ) ۔
حدیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اسلام کی بنیاد پانچ چيزوں پر ہے : یہ گواہی دینی کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئي معبود برحق نہیں ، اوریقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں ، اورنماز قائم کرنا ، زکوۃ ادا کرنا ، حج کرنا ، اوررمضان المبارک کے روزے رکھنا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 8 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 16 ) ۔
لھذا جوکوئي بھی روزہ نہ رکھے اس نے ارکان اسلام کاایک رکن ترک کیا ، اورکبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا ، بلکہ بعض سلف صالحین نے تو اس کافر اورمرتد قرار دیا ہے ، اللہ تعالی اس سے بچائے ۔
ابویعلی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی مسند میں ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اسلام کے کنڈے اوردین کی بنیاد تین چيزیں ہیں جس پردین اسلام کی اساس قائم ہے جس نے بھی اس میں سے کوئي ایک کو ترک کیا وہ کافر ہے اوراس کا خون حلال ہے – وہ تین اشیاء یہ ہیں – اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئي معبود برحق نہیں ، اورفرضی نماز ، اوررمضان کے روزے ) ۔
علامہ ذھبی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اورھيثمی رحمہ اللہ تعالی نے مجمع الزوائد ( 1 / 48 ) اورامام منذری رحمہ اللہ تعالی نےالترغیب والترھیب ( 805 – 1486 ) میں اسے حسن کہا ہے ، لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الضعیفۃ ( 94 ) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب الکبائر میں کہتے ہيں :
مومنوں کے ہاں یہ بات مقرر شدہ ہے کہ جس نے بھی بغیر شرعی عذر اورمرض کے رمضان المبارک کا ایک بھی روزہ ترک کیا تو وہ زانی اورشرابی سے بھی زيادہ برا اورشریر ہے ، بلکہ اس کے اسلام میں بھی شک کیا جاتا ہے اوراسے زندیق اورگمراہ شمار کرتے ہیں ۔ ا ھـ
روزہ ترک کرنے والے کی سزا اوروعید کے بارہ میں صحیح حدیث میں ہے کہ :
ابوامامۃ باھلی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
( میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دوشخص آئے اورمیرے بازو پکڑ کرمجھے سخت اوردشوار گزارپہاڑ کے پاس لائے اورکہنے لگے : اس پر چڑھیے ، میں نے انہیں کہا کہ مجھ میں اس پر چڑھنے کی طاقت نہیں ، وہ دونوں کہنے لگے ہم آپ کے لیے اسے آسان کردیں گے ، تومیں اس پہاڑ پر چڑھ گیا جب اوپر پہنچا تووہاں شدید قسم کی آوازیں آرہی تھیں ، میں نے کہا یہ آوازيں کیسی ہیں ؟
وہ کہنے لگے : یہ جہنمیوں کی آہ بکا ہے ، پھر وہ مجھے آگے لے گئے جہاں پر کچھ لوگ کونچوں کے بل لٹک رہے تھے اوران کی باچھیں کٹی ہوئي تھیں ، اوران کی باچھوں سے سے خون بہہ رہا تھا ، میں نے کہا یہ لوگ کون ہیں ؟
وہ کہنے لگے : یہ وہ لوگ ہیں جو افطاری سے قبل ہی اپنے روزے افطار کرلیا کرتے تھے ) علامہ البانی رحمہ اللہ نے موارد الظآن ( 1509 ) میں اس حديث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
دیکھیں الکبائر ص ( 64 )
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
یہ اس شخص کی سزا ہے جو روزہ رکھنے کے بعد افطاری سے قبل ہی عمدا یعنی جان بوجھ کرروزہ افطار کردے ، تواب بتائيں کہ جو بالکل ہی روزہ نہ رکھے اس کی سزا کیا ہوگي ؟ ہم اللہ تعالی سے دنیا وآخرت میں سلامتی وعافیت کے طلبگار ہيں ۔ ا ھـ
عرقوب ایڑی کے اوپر والے پٹھے کوکہا جاتا ہے ۔
اورشدق منہ کی ایک جانب یعنی باچھ ہے ۔
توہم سوال کرنے والے بھائي سے یہ التماس وگزارش کریں گے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اختیارکرتے ہوئے اس سے ڈرے اوراپنے آپ کواللہ تعالی کے غضب اورعذاب سے بچائے اورجتنی جلدی ہوسکے توبہ کرے قبل اس کے کہ لذتوں کو ختم کرنے جماعتوں کو علیحدہ کرنے والی موت اسے اچانک آدبوچے ۔
اس لیے کہ آج توعمل کیا جاسکتا ہے اورحساب وکتاب نہيں لیکن کل قیامت کے روز عمل نہیں ہوگا بلکہ صرف حساب وکتاب ہی ہوگا ، آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ جوبھی اللہ تعالی کے سامنے توبہ کرتا ہے اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرتے ہوئے اس کے گناہ معاف کردیتا ہے ۔
بلکہ جوشخص بھی اللہ تعالی کے قریب ایک بالشت ہوتا ہے اللہ تعالی ایک گز اس کے قریب ہوتا ہے ، وہ اللہ سبحانہ وتعالی کریم وحلیم اوررحم کرنے والا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
کیا انہیں یہ علم نہیں کہ اللہ تعالی ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اوروہی صدقات قبول فرماتا ہے ، اوریہ کہ اللہ تعالی ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے التوبۃ ( 104 ) ۔
اوراگر آپ نے روزہ رکھنے کا تجربہ کیا ہواوراس میں جوآسانی ، انس وراحت اوراللہ تعالی کا قرب وغیرہ ہے کوجان لیں تو آپ روزہ کو کبھی بھی ترک نہ کریں ۔
اورپھر آپ اللہ تعالی کے مندرجہ ذيل فرمان میں غوروفکر اورتامل توکریں کہ اللہ تعالی نے روزوں کی آیات ختم کرتے ہوئے فرمایا ہے :
اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے نہ کہ سختی ۔
اورپھر یہ فرمایا : تا کہ تم اللہ تعالی کا شکر ادا کرو
اس میں غور کریں توآپ کویہ ادراک ہوگا کہ روزہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا شکرادا کرنا ضروری ہے ، اسی لیے سلف صالحین میں سے ایک گروہ تویہ تمنا کیا کرتے تھے کہ سارا سال ہی رمضان ہونا چاہیے ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کو توفیق عطا فرمائے اورصراط مسقیم کی ھدایت نصیب کرے اورآپ کے سینہ کودنیا وآخرت کی سعادت والے کاموں کے لیے کھول دے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب