دورانِ جنابت گدے اور رضائی کو منی لگ جاتی ہے، میں منی کو نجس سمجھتا ہوں، اگر فرض کریں کہ یقینی طور پر منی بستر کو لگ گئی ہے تو میں یوں کرتا ہوں کہ اگر بستر پر منی لگ جائے تو میں اسے فوری نہیں دھوتا؛ کیونکہ اس کی نجاست حکمی ہے اور اس کے کوئی نشانات بھی نہیں ہوتے اس لیے میں اسے یوں ہی چھوڑ دیتا ہوں، ایسا میں اس لیے کرتا ہوں کہ میں طلبہ کے ہمراہ ایک مشترکہ کمرے میں رہتا ہوں تو میرے لیے ہر بار بستر دھونا مشکل ہوتا ہے۔ اب ہوتا یوں ہے کہ میں اسی بستر پر بیٹھ بھی جاتا ہوں تو کبھی میرا جسم گیلا ہوتا ہے تو کبھی بستر گیلا ہوتا ہے، تو میں امام مالک کے موقف پر عمل کرتا ہوں کہ حکمی نجاست منتقل نہیں ہوتی، تو کیا جو میں کرتا ہوں وہ صحیح ہے؟ اور یہ بھی واضح کریں کہ کیا میری نمازیں صحیح ہیں؟ کیونکہ میں اسی لباس میں نماز ادا کرتا ہوں جن میں اپنے بستر پر بیٹھتا ہوں۔
اگر منی کو نجس کہیں تو کیا بستر پر لگی منی کی نجاست گیلے جسم میں منتقل ہو جاتی ہے؟
سوال: 389002
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
کیا منی پاک ہے؟
فقہائے کرام کا منی کے پاک یا نجس ہونے کے بارے میں اختلاف ہے اور اس حوالے سے ان کے دو موقف ہیں: چنانچہ امام شافعی اور احمد کے ہاں منی پاک ہے، ان کا موقف دلیل کے لحاظ سے قوی ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ اور مالک کے ہاں منی نجس ہے۔
دوم:
جس وقت انسان کو احتلام ہو تو منی کو نجس قرار دینے کی صورت میں بھی بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ منی بستر کو لگ جائے؛ کیونکہ عام طور پر منی کپڑوں میں ہی رہ جاتی ہے، باہر نہیں نکل پاتی۔
اس لیے وسوسوں سے بچیں کیونکہ وسوسے بذات خود بیماری اور بری چیز ہیں۔
اور اگر فرض کر لیں کہ بستر کو منی یقینی طور پر لگ گئی ہے، تو جب منی خشک ہو گئی اور انسان اس پر خشک ہونے کے بعد بیٹھا تو پھر انسان نجس نہیں ہو گا، الا کہ انسان کا جسم گیلا ہو، یا بستر گیلا ہو، لہذا دونوں خشک ہوں تو نجاست منتقل نہیں ہوتی۔
مالکی فقہائے کرام کا موقف ہے کہ اگر عام پانی کے علاوہ کسی اور چیز کے ذریعے نجاست ہٹائی جائے تو نجاست منتقل نہیں ہو گی چاہے گیلا پن موجود بھی ہو۔
جیسے کہ مالکی فقیہ امام خلیل کہتے ہیں:
"اگر نجاست عام پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے ہٹائی دی جائے تو اب اس جگہ پر جو چیز بھی لگے تو وہ نجس نہیں ہو گی۔" ختم شد
ماخوذ از: مختصر الخلیل ۔
حطاب رحمہ اللہ مختصر خلیل کی شرح "مواهب الجليل" (1/165) میں کہتے ہیں:
"جس وقت نجاست عام پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے زائل کی جائے چاہے پانی ملا کوئی محلول ہو، یا سرکے وغیرہ جیسا کوئی سیال مادہ ہو۔ اور اگر ہم کہیں کہ اس عمل سے وہ جگہ پاک نہیں ہو گی بلکہ وہ جگہ ابھی بھی نجس ہی ہے وہاں نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، پھر اس جگہ کے گیلے ہوتے ہوئے کوئی چیز وہاں لگے، یا وہ نجس چیز خشک ہو یا گیلی تاہم اس کے ساتھ لگنے والی چیز گیلی ہو، تو کیا یہ لگنے والی چیز نجس ہو جائے گی یا نہیں؟ اس حوالے سے دو اقوال ہیں۔ ابن عبد السلام اور مؤلف وغیرہ کہتے ہیں کہ: اکثر اس کے نجس نہ ہونے کے قائل ہیں۔" ختم شد
اسی طرح علیش رحمہ اللہ "منح الجليل" (1/73) میں کہتے ہیں:
"اگر نجاست اپنی جگہ سے عام پانی کے علاوہ کسی اور چیز کے ذریعے زائل ہو گئی مثلاً ایسے پانی سے جس میں گلاب یا کَلی کے گرنے سے اس کا رنگ بدل گیا، اور اب نجاست کی جگہ پر گیلا پن موجود ہے، اسی گیلی جگہ پر کوئی خشک یا گیلی چیز لگی، یا وہ جگہ تو خشک ہو گئی لیکن کوئی گیلی چیز وہاں لگے تو اس جگہ کو لگنے والی چیز نجس نہیں ہو گی، یہی حنبلی فقہی موقف ہے۔" ختم شد
تو جگہ خشک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نجاست کو عام پانی کے علاوہ کسی بھی چیز سے زائل کر کے جگہ خشک ہو جائے، یہ مطلب نہیں ہے کہ نجاست زائل کیے بغیر نجاست ہی خشک ہو گئی اور پھر اس کے ساتھ کوئی چیز گیلی یا خشک لگے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب