اول:
سودى بنكوں ميں رقم ركھنى اور اس پر سود لينا اور فائدے كانام دينا كبيرہ گناہوں ميں سے ہے، اور اس مال كى زكاۃ ادا كرنے سے صاحب مال كو گناہ سے نہيں بچاتى .
آپ سوال نمبر (22339 ) كے جواب كا مطالعہ كريں اس ميں سود كى حرمت كا بيان ہے.
اور اسى طرح سوال نمبر (181 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں، كيونكہ اس ميں سودى بنكوں كےاندر مال ركھنے كى حرمت بيان كى گئى ہے.
دوم:
اور رہا مسئلہ زكاۃ كے مصاريف كاتو يتيم خانہ اور ہاسپٹل بنانے كے ليے زكاۃ دينا جائز نہيں، نہ تو ہاتھوں ہاتھ اور نہ ہى كسى واسطہ كے ذريعہ، كيونكہ زكاۃ كے مصرف محصورہ اور مقرر كردہ ہيں ان سے زيادہ كرنا جائز نہيں.
اللہ تعالى نے زكاۃ كےمصاريف مندرجہ ذيل فرمان ميں بيان فرمائے ہيں:
صدقے ( زكاۃ ) صرف فقيروں كے ليے ہيں اور مسكينوں كے ليے اور ان كے وصول كرنے والوں كے ليے، اور تاليف قلب كے ليے، اور گردن آزاد كرانے كےليے اور قرض داروں كے ليے اور اللہ كى راہ ميں اور راہرو مسافروں كے ليے التوبۃ ( 60 ).
اور زكاۃ كے ان مصاريف كى تفصيل اور وضاحت ہم نے سوال نمبر ( 6977 ) كے جواب ميں كى ہے اس كا مطالعہ كر ليں.
اور ہم نے سوال نمبر (13734 ) اور (21797 ) كے جوابات ميں مساجد اور مدارس كى تعمير اور اسى طرح قرآن مجيد كى طباعت كے ليے زكاۃ دينى جائز نہيں تفصيل سے بيان كيا ہے لہذا آپ ان سوالات كے جوابات ديكھيں.
ليكن اگر اس زكاۃ كو يتيم خانہ ميں اس ليے لگايا جارہا ہو كہ اس سے يتيم فقراء پر خرچ كيا جائے گا تو پھر اگر يتيم فقراء ہوں تو جائز ہے.
اور افضل اور بہتر يہ ہے كہ زكاۃ دينے والا خود زكاۃ كو خود صرف كرے تا كہ اسے علم ہو كہ اس نےزكاۃ اللہ تعالى كے حكم كے مطابق صرف كى ہے، آپ كو چاہيے كہ آپ مستحق افراد كى تحديد ميں كوشش كريں.
واللہ اعلم .