ميرے والد صاحب ملازم ہيں بعض لوگ دفتر ميں انہيں بطورہديہ كبھي پيسے اور كبھي كوئي چيز ہديہ ديتےہيں كچھ مدت تك تو وہ يہ اشياء لينے سے باز رہے ليكن پھر جلد ہي يہ اشياء لينا شروع كرديں ، اور مجھے وہ يہ كہتےہيں كہ ميں ہديہ دينےاور نہ دينےوالے ميں كوئي فرق نہيں كرتا ، جو كچھ ہم اشياء جمع كرتےہيں اس كےبارہ ميں ہمارا موقف كيا ہونا چاہيے ( كھانا پينا اور لباس وغيرہ ) اورجب كھانےكےليے كوئي چيزہديہ دي جائےتو كيا ہم اسےكھا سكتےہيں ، بلكہ ايك بار توبعض لوگوں سےمجھے يہ لباس لينےپر مجبور بھي كيا تو كيا ميرے ليے يہ لباس پہننا جائز ہے ؟
ملازم كا ہديہ قبول كرنا اور اس كي اولاد كا اس سےفائدہ اٹھانا
سوال: 39488
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ كےوالد كے ليے ملازمت كي بناپر ديےگئے ہديے قبول كرنےجائز نہيں اس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
ابوحميد الساعدي رضي اللہ تعالي بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو زكاۃ لينے پر مقرر كيا جب وہ زكاۃ اكٹھي كر كےواپس آيا تو نبي صلي اللہ عليہ وسلم كےپاس آكر كہنےلگا: اے اللہ تعالي كے رسول صلي اللہ عليہ وسلم يہ آپ كےليے ہے اور يہ مجھے ہديہ ديا گيا ہے ، تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم اسے فرمانےلگے :
تواپنےماں باپ كےگھر بيٹھ رہتا اور ديكھتا كہ تجھے ہديہ ديا جاتا ہے كہ نہيں ، پھر رات كونماز كےبعد رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے كھڑے ہو كر خطبہ ارشاد فرمايا اوراللہ تعالي كي اس طرح حمد وثنا بيان كي جس كا وہ مستحق ہے اور فرمايا :
اما بعد: اس ملازم كا كيا حال ہے جسے ہم كوئي كام كرنے كا كہتے ہيں تو وہ ہمارے پاس آكر كہتا ہے كہ يہ تمہارے كام كي بنا پر ہے اور يہ چيز مجھے ہديہ دي گئي ہے ، كيوں نہيں وہ اپنے ماں باپ كےگھر ميں بيٹھ رہتا اور پھر ديكھے كہ كيا اسے ہديہ ديا جاتا ہے كہ نہيں ، اس ذات كي قسم جس كےہاتھ ميں محمد صلي اللہ عليہ وسلم كي جان ہے تم ميں جو كوئي بھي كسي چيز ميں خيانت كرےگا وہ روز قيامت آئےگا تو اسے اپني گردن پر اٹھائے ہوئے ہوگا اگروہ اونٹ ہے تو وہ اس كےساتھ آئےگا اور اونٹ كي آواز ہوگي ، اور اگر گائےہے تو وہ اسےليكرآئےگا اور گائے آواز نكال رہي ہوگي ، اور اگر بكري ہوئي تو وہ اسےلےكر آئےگا اور وہ ممنا رہي ہوگي ، ميں نےپہنچا ديا .
ابوحميد رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ پھر رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےاپناہاتھ بلند فرمايا حتي كہ ہم نے ان كي بغلوں كي سفيدي ديكھي .
( الرغاء ) مد كےساتھ اس كا معني اونٹ كي آواز كو كہتےہيں .
( خوار ) گائے كي آواز
( تيعر ) اس كا معني ہے كہ چيخ رہي ہوگي اور اليعار بكري كي آواز كو كہتےہيں .
( پھر انہوں نےاپنےہاتھ اٹھائے حتي كہ ہم نےان كي بغلوں كي سفيدي ديكھي ) عقرۃ الابط بغلوں كي سفيدي كو كہتےہيں .
توآپ كےوالد كوبھي يہي كہا جائےگا جس طرح رسول كريم صلي اللہ نےفرمايا تھا: تو اپنےماں باپ كےگھر كيوں نہيں بيٹھ رہتا اور پھر ديكھ كہ تجھے ہديہ ديا جاتا ہےكہ نہيں .
اس ليے كہ يہ ہديے تو صرف تيرے عہدہ كي بنا پرتجھے مل رہے ہيں ، اور جب معاملہ ايسا ہي ہے تو پھر يہ اس كےكام كا حق ہے اسے كوئي حق نہيں كہ وہ يہ ہديہ اپني ملكيت ميں لائے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں كہ :
( يہ حديث اس كي دليل ہے كہ كسي بھي سركاري ملازم كےليےضروري اور واجب ہے كہ اس كےذمہ جوبھي كام لگايا گيا ہو وہ اسے پورا كرے اور اس كا كوئي حق نہيں كہ وہ ملازمت كي بنا پر كوئي ہديہ لے اور اگر وہ لے بھي تو اسے بيت المال ميں ركھنا چاہيے ، اس صحيح حديث كي بنا پر اس كےليے جائز نہيں كہ وہ خود لےجائے ، اور اس ليے بھي كہ يہ شر اور برائي كا وسيلہ اور امانت ميں خلل پيدا كرنا ہے ) ديكھيں : فتاوي علماء بلد الحرام صفحہ (655)
اور امام احمد اور امام بيھقي نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم سے حديث روايت كي ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
ملازموں كےہديہ جات خيانت ہيں . علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح الجامع ( 7021 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے .
اور آپ كےوالد كا يہ كہنا كہ ميں ہديہ دينے اور نہ دينےوالے ميں كوئي فرق نہيں كرتا يہ ہديہ لينےكوحلال نہيں كرتا ، ليكن اگر كوئي ہديہ نہ دے تو وہ اسے نقصان دے تو اس ميں اور بھي زيادہ گناہ ہے .
اور اس كا يہ يقين كےساتھ كہنا كہ ہديہ دينے اور نہ لينےوالے ميں كوئي فرق نہيں كرتا اس ميں شبہ ہے اور اس كي يہ بات محل نظر ہے ، اس ليے كہ انسان كےدل ميں ہديہ كي تاثير ہوتي ہے اور انسان كي جبلت ميں يہ داخل ہے كہ اس كےساتھ جوبھي احسان كرے وہ اس سےمحبت كرنےلگتا ہے ، لھذا يہ ہديہ آپ كےوالد كوہديہ دينےوالے كي محبت پر اكسائےگا جس كي بنا پر وہ اسے وہ كچھ دےگا جس كا وہ مستحق نہيں تھا .
لھذا اسے اللہ تعالي كا تقوي اختياركرتےہوئے اللہ تعالي سے ڈرنا چاہيے اور اس فاني دينا كےمال ومتاع سے بے رغبتي كرني چاہيے ، اور دنيا كا سارا مال ہي ايسا ہے توپھر حرام مال كيسا ہوگا ! ؟
جوكچھ اس نےہديہ جات ميں حاصل كيا ہے آپ كےليے انہيں استعمال كرنا اور اس سےفائدہ حاصل كرنا جائز نہيں اس ليےكہ وہ حرام ہے .
اور آپ نے اس كي تنخواہ ميں جوكچھ جمع كيا ہے جو وہ اپني جائز ملازمت كےبدلے حاصل كررہا ہے اس كے استعمال ميں كوئي حرج نہيں .
اوروہ لباس جسےلينے پر مجبور كيا گيا ہے اگر تو اس نے عام پيسوں سے خريدا ہے اسے زيب تن كرنے ميں كوئي حرج نہيں ، اور اگر اس نےہديہ ليا ہى يا اس كي رقم ميں كوئي شك ہے تو آپ اسےنہ پہنيں ، اور اپنےوالد كو وعظ ونصيحت كرنے كي كوشش كريں اور انہيں حرام مال كي خطرناكي سےآگاہ كريں اور انہيں اہل علم سے سوال كرنے پر ابھاريں تا كہ اس كا شك وشبہ زائل ہو .
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب