میرے پڑوسی سارا دن بلند آواز سے گانے لگا کر رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے میں قرآن کریم کی تلاوت نہیں کر سکتا، نہ ہی میں کچھ پڑھ سکتا ہوں، بات یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ میں سوتا بھی ہوں تو کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونک کر سوتا ہوں، میں کسی مجبوری کی وجہ سے گھر میں ہی رہتا ہوں، گھر سے صرف نماز کے لیے یا کسی ضروری کام سے ہی نکلتا ہوں، تو کیا میرے لیے ان پر بد دعا کرنا جائز ہے کہ اللہ تعالی انہیں جسمانی تکلیف میں مبتلا کر دے، لیکن دوسری طرف مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں یہ بد دعا مجھ پر ہی نہ لوٹ آئے۔ واضح رہے کہ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، اور ہم اس سے پہلے بھی پڑوسیوں کی بد سلوکی کی وجہ سے کئی بار مکان تبدیل کر چکے ہیں، پھر جب ہم اس مکان میں آئے ہیں تو یہاں بھی وہی مسئلہ ہے۔
تنگ کرنے والے پڑوسی کے خلاف بد دعا کرنے کا حکم
سوال: 395965
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مظلوم شخص ظالم کے خلاف بد دعا کر سکتا ہے۔
جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا اور فرمایا: (مظلوم کی بد دعا سے بچنا؛ کیونکہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2448) اور مسلم : (19) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین طرح کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں: والد کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔) اس حدیث کو ابو داود: (1536) اور ترمذی: (1905) نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ حدیث حسن ہے۔
تاہم یہ دعا ایسی ہونی چاہیے جس میں کسی قسم کا ظلم اور زیادتی شامل نہ ہو۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مظلوم کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آپ پر ظلم کرے اور آپ اس کے خلاف اللہ تعالی سے بد دعا کریں تو اللہ تعالی آپ کی بد دعا اس کے خلاف قبول فرمائے گا، چاہے بد دعا کرنے والا شخص کافر ہی کیوں نہ ہو، آپ نے اس پر ظلم کیا اور اس نے اللہ تعالی سے تمہارے لیے بد دعا کر دی تو اللہ تعالی اس کافر مظلوم کی بد دعا بھی قبول فرمائے گا، اس لیے نہیں کہ اللہ تعالی کو کافر سے کوئی محبت ہے، بلکہ اس لیے کہ اللہ تعالی عدل کو پسند فرماتا ہے، اور ویسے بھی اللہ تعالی کی ذات فیصل اور عادل ہے اور مظلوم کی داد رسی بھی بہت ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جس وقت یمن بھیجا تو انہیں خصوصی طور پر فرمایا تھا: (مظلوم کی بد دعا سے بچنا؛ کیونکہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔)
لہذا مظلوم شخص کی بد دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب وہ ظالم کے خلاف ظلم کے برابر یا ظلم سے کم بد دعا کرے، لیکن اگر حد سے تجاوز کرے تو پھر وہ حد سے بڑھ رہا ہے اس لیے اس کی دعا قبول نہیں کی جائے گی۔" ختم شد
"شرح ریاض الصالحین" (4/ 615–616)
اس لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ ان کے خلاف جسمانی تکلیف کی بد دعا کریں، آپ کے لیے شرعی طور پر یہ جائز ہو گا کہ آپ یہ دعا کریں کہ : اللہ تعالی آپ کو ان کے شر اور تکلیف سے محفوظ فرما دے، یا پھر آپ یہ بد دعا کر دیں کہ اللہ تعالی ان کے اس آلے کو خراب کر دے جس کے ذریعے وہ آپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں ۔۔۔ یا اسی طرح کی کوئی بد دعا کر سکتے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر آپ ان کی ہدایت کی دعا کریں تو یہ بہتر اور افضل ہو گا، چنانچہ اگر اللہ تعالی آپ کی یہ دعا قبول فرما لے تو اس سے آپ کا مقصد بھی پورا ہو جائے گا کہ ان کی تکلیف سے بچ جائیں گے اور ساتھ ہی آپ کو ان کی ہدایت کا سبب بننے کی وجہ سے ثواب بھی ملے گا۔
اسی طرح آپ ان کے لیے ہدایت کی دعا کریں تو یہ فرشتوں کی آپ کے لیے دعا کرنے کا باعث بھی بنے گا۔
جیسے کہ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی بھی مسلمان اپنے بھائی کے لیے اس کی عدم موجودگی میں دعا کرے تو فرشتہ اسے کہتا ہے: تجھے بھی یہ سب کچھ ملے۔) مسلم: (2732)
قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسے بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنی اس نے دعا کی ہو گی؛ کیونکہ اگرچہ اس نے دعا کسی کے لیے کی ہے لیکن اس دعا میں اس نے دو نیک عمل کیے ہیں: پہلا عمل: اس شخص نے اخلاص دل کے ساتھ اللہ تعالی کو یاد کیا ہے، اپنے قلب و زبان سے اللہ تعالی سے دعا کی ہے۔ دوسرا عمل: اس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کی خیر چاہی اور اس کے لیے خیر کی دعا کی ہے۔ یہ دوسرا عمل مستقل طور پر قابل اجر عمل ہے، اور اس حدیث میں تو بالکل واضح ہے کہ یہ دعا قبول بھی کی جاتی ہے۔" ختم شد
"إكمال المعلم" (8/228)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب