0 / 0

سودى لين دين كرنے والے كا ہديہ قبول كرنا

سوال: 39661

كيا ميرے ليے سودى لين دين كرنے والے كا ہديہ قبول كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہوديوں كے ساتھ خريد و فروخت جيسے معاملات كيا كرتے، اور ان سے ہديہ بھى قبول كرتے تھے، حالانكہ يہودى سودى لين دين كرتے ہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يہوديوں ميں سے ظلم كرنے والوں پر ہم نے وہ پاكيزہ اشياء ان پر حرام كرديں جو ان كے ليے حلال كى گئي تھيں، اور اكثر لوگوں كو اللہ تعالى كى راہ روكنے كے باعث

اور ان كے سود لينے كے باعث جس سے انہيں روكا گيا تھا، اور لوگوں كا ناحق مال كھانے كے باعث النساء ( 160 – 161 ).

اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كا ہديہ قبول فرمايا كرتے تھے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے خيبر ميں اس يہودى عورت كا ہديہ قبول كيا جس نے آپ كو بكرى كا بطور ہديہ پيش كى تھى، اور ان يہوديوں كے ساتھ لين دين كيا، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس دنيا سے رخصت ہوئے تو آپ كى درع ايك يہودى كے پاس گروى ركھى ہوئى تھى.

اس ميں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:

وہ چيز جو بطور كمائى حرام ہو، وہ صرف كمانے والے پر حرام ہے، ليكن جو شخص اس حرام كمائى كو جائز اور مباح طريقہ سے حاصل كرتا ہے اس كے ليے وہ حرام نہيں.

اس بنا پر سودى لين دين كرنے والے كا ہديہ قبول كرنا جائز ہے، اور اس كے ساتھ خريدوفروخت كا معاملہ كرنا بھى جائز ہوگا، ليكن اگر اس سے تعلقات منقطع كرنے ميں كوئى مصلحت ہو، يعنى اس كے ساتھ لين دين نہ كرنے، اور اس كا ہديہ قبول نہ كرنے ميں كوئى مصلحت پيش نظر ہو تو پھر لين دين نہيں كرنا چاہيے، تو ہم مصلحت كے پيش نظر اس كے پيچھے چليں گے اور اس سے لين دين نہيں كرينگے.

ليكن جو چيز بعينہ حرام ہو تو وہ لينے اور دوسروں سب پر حرام ہے مثلا شراب حرام ہے، اگر كوئى يہودى يا عيسائى جو اسے مباح اور جائز سمجھتے ہيں وہ مجھے ہديہ ديں، تو ميرے ليے يہ ہديہ قبول كرنا جائز نہيں كيونكہ يہ چيز بعنيہ حرام ہے.

اور اگر كوئى انسان كسى شخص كا مال چورى كرے اور آكر وہ مال مجھے ديتا ہے تو يہ مسروقہ مال لينا مجھ پر حارم ہے، كيونكہ يہ بعنيہ حرام ہے.

يہ قاعدہ اور اصول آپ كو كئى ايك اشكالات سے راحت ديگا، جو بطور كمائى حرام ہو وہ صرف كمانے والے شخص پر حرام ہے، ليكن اسے حلال طريقہ سے حاصل كرنے والے پر حرام نہيں، ليكن اگر اس سے تعلقات منقطع كرنے اور اس سے نہ لينے اور اس كا ہديہ قبول نہ كرنے ميں، اور اس كے ساتھ خريد و فروخت نہ كرنے ميں كوئى مصلحت ہو جو اس عمل سے منع كرتى ہو تو پھر مصلحت كے پيش نظر اس سے تعلقات منتقطع كيے جائينگے.

ماخذ

ديكھيں: اسئلۃ الباب المفتوح للشخ ابن عثيمين ( 1 / 76 )

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android