مجھے گھريلو اشياء قسطوں ميں فروخت كرنے كے كاروبار ميں حصہ دار بننے كى پيشكش كى گئى جس كى صورت درج ذيل ہے:
ہم ان اشياء كے مالك تو نہيں، بلكہ ايك شخص ہمارے دفتر آكر كہتا ہے كہ مجھے فلان چيز دركار ہے، مثلا مجھے چار ائر كنڈيشن، تو ہم اس كے ليے يہ سامان خريدتے اور اس كى قيمت اس دوكاندار كو ادا كرتے ہيں جس سے ہمارا تجارتى لين دين ہے، اور يہ اشياء گاہك كے ساتھ قيمت پر متفق ہو جانے كے اس سامان كو قسطوں فروخت كرديتے ہيں( مثلا اس كى نقد قيمت 1200ريال ہے تو اسے قسطوں ميں 2000ريال پر فروخت كيا جاتا ہے.
بعض گاہك تو اسے اپنے استعمال كے ليے خريدتے ہيں اور بعض لوگ اسے اس ليے خريدتے ہيں كہ جس دوكان نے ہم نے خريدا ہے اسے وہ اسى كے پاس فروخت كرديں، كيونكہ خريدار اس دوكان پر ريٹ اچھا مل جاتا ہے، اور اب ہم بھى اسى طريقہ پر عمل كرنا چاہتے ہيں تا كہ ہمارے پاس راس المال جمع ہو جائے جو گھريلو استعمال كى اشياء كے ليے كافى ہو اور ہم خود يہ اشياء نقدا يا قسطوں ميں فروخت كرسكيں.
تو كيا يہ طريقہ صحيح ہے، ہمارى آپ سے گزارش ہے كہ اس كى وضاحت فرمائيں كيونكہ ہم اور بہت سے دوسرے مسلمان اس طريقہ پر عمل كرتے ہوئے اس كى فروخت كرتے ہيں ؟
خريد كا كہنے والے كو قسطوں ميں اشياء كى فروخت
سوال: 40000
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ:
اگر تومعاملہ اسى طرح ہے جيسا آپ ذكر كر رہے ہيں كہ: آپ گاہك كو مطلوبہ چيز حقيقتا خريدكر اپنے قبضہ ميں كرتے اور پھر اسے گاہك كو قسطوں ميں فروخت كرتے ہيں تو ايسا كرنےميں كوئى حرج نہيں، چاہے موجودہ قيمت سے قسطوں كى فروخت ميں قيمت زيادہ بھى ہو.
اور اسميں يہ چيز نقصان دہ نہيں كہ آپ سے خريدنےوالا شخص پہلى دوكان جس سے آپ نے خريدارىكى ہے كو يہ سامان فروخت كردے، كيونكہ اس دوكان اور خريدار كے مابين كوئى تعلقنہيں ہے.
مستقلفتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ميرےاور ايك شخص كے درميان اتفاق ہوا ہے كہ ميں اسے گاڑى خريد كر دوں، ميں نے اسے كہاكہ شوروم ميں گاڑى كى قيمت ( 50000 ) پچاس ہزار ريال كى ہے جب ميں تيرے ليے لاؤں تو تم مجھے (60000 ) ساٹھ ہزار ريال دوگے، تو كيا ايسا كرنا صحيح ہے؟
جبگاڑى يا كوئى اور چيز خريد ليں اور اسے اپنى ملكيت اور قبضہ ميں كرليں تو آپ اسےكسى دوسرے شخص كو فروخت كرسكتے ہيں، لہذا آپ اسے موجود قيمت يا ادھار جو نقد كىقيمت سے زيادہ ہو دونوں طرح فروخت كرسكتے ہيں ايسا كرنا جائز ہے، چاہے ادھار والىقيمت قسطوں ميں ادا كى جائے يا يكمشت، اس ليے كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ تعالى نے بيع حلال كى ہے البقرۃ ( 275 )
اورايك مقام پر اسطرح فرمايا:
اے ايمان والو جب تم ايك وقت تك كےليے ايك دوسرے سے قرض كا لين دين كرو تو اسے لكھ ليا كروالبقرۃ ( 282 ).
اور اسميں ادھار كى بيع كى قيمت بھى شامل ہے.
ليكنايسے شخص كو جس نے كوئى چيز خريدنے كا كہا ہو اسے اس چيز كى خريدارى كركے اسے اپنےقبضہ ميں كرلينے سے قبل فروخت كرنا جائز نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلمسے ثابت ہے كہ:
زيد بنثابت رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريم صلى اللہ نے كسى چيز كو وہيںفروخت كرنے سے منع فرمايا جہاں وہ خريدى گئى ہو بلكہ اسے اپنے قبضہ ميں كرنے اوروہاں سے منتقل كرنے كے بعد فروخت كرنا چاہيے”سنن ابو داود حديث نمبر ( 3499 ) شيخ البانى رحمہ اللہتعالى نے اسے حسن لغيرہ قرار ديا ہے.
اورايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
“جس نے غلہ خريدا تو وہ اسے اس وقت تك فروخت نہ كر لے جب تك وہ اسے ماپ تول كر اپنےپورا اپنے قبضہ ميں نہ كرلے” صحيح مسلم حديث نمبر ( 1596 ).
اورايك حديث ميں فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:
“جو تيرے پاس نہيں ہے اسے فروخت نہ كر” مسند احمد حديث نمبر ( 3503 ) علامہ البانى رحمہاللہ تعالى نے اسے صحيح الجامع ( 7206 ) ميں صحيح كہا ہے.
اورابن عمر رضي اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں كہ:
“ہم قافلے والوں سے بغير ماپ اورتول كے غلہ خريدا كرتے تھے، تو رسول كريم صلى اللہعليہ وسلم ہمارى جانب كسى شخص كو بھيجتے جو ہميں منع كرتا كہ اسے اس وقت تك فروختنہ كرنا جب تك تم اسے اپنے پڑاؤ ميں نہ لے جاؤ” صحيح بخارى و مسلم ( 1527 ).
ليكنبيع العينۃحرام ہے، اس كى شكل يہ ہے كہ: سامان كو ادھار خريد كر پھر اسےفروخت كرنے والے شخص كے پاس ہى اس قيمت سے كم ميں فروخت كرديا جائے، جو كہ اس سوالميں بيان كى گئى صورت ميں نہيں ہے.
آپمزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 36408 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات