اگر ميں كسى شہر ميں دوران سفر مؤقت اقامت اختيار كروں تو كيا اپنے گھر ميں نماز قصركر كے ادا كرنى افضل ہے يا كہ ميں مسجد ميں نماز باجماعت اور پورى ادا كروں ؟
كيا مسافر اپنے گھر ميں نماز قصر ادا كرے يا كہ مسجد ميں جماعت كے ساتھ نماز ادا كرنى چاہيے ؟
سوال: 40299
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نماز باجماعت ادا كرنا واجب ہے، بغير كسى عذر كے مسلمان شخص نماز باجماعت ترك نہيں كر سكتا، كتاب و سنت سے اس كے دلائل بيان كيے جا چكے ہيں، آپ سوال نمبر ( 8918 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس بنا پر آپ كو مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنى چاہيے، اور اگر امام مقيم ہو ( يعنى مسافر نہ ہو ) تو آپ اس كے ساتھ مكمل نماز ادا كرينگے، قصر نہيں.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
مثلا اگر كوئى انسان جدہ كا سفركرے تو كيا اسے نماز قصر كرنے كا حق حاصل ہے، يا كہ وہ مسجد ميں نماز باجماعت ضرور ادا كرے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" اگر تو مسافر راستے ميں ہو تو پھر كوئى حرج نہيں، ليكن اگر وہ شہر ميں پہنچ گيا ہو تو پھر وہ اكيلا نماز ادا نہ كرے، بلكہ اسے لوگوں كے ساتھ مكمل نماز ادا كرنا ہو گى، ليكن اگر وہ راستے ميں اكيلا ہو اور نماز كا وقت ہو جائے تو سفر ميں اكيلے نماز ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور وہ چار ركعتى نماز قصر كر كے دو ركعت ادا كرے " اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ للشيخ عبد العزيز بن باز ( 12 / 297 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا كہ:
مسافر كى نماز كب اور كيسے ہو گى ؟
تو شيخ كا جواب تھا:
" اپنے شہر سے نكلنے كے وقت سے ليكر واپس آنے تك مسافر كے ليے نماز دو ركعت ہے، كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا قول ہے:
" ابتدا ميں نماز دو ركعت فرض كى گئى تھى، تو يہ سفر كى نماز مقرر كر دى گئى، اور حضر ميں مكمل كر دى گئى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1090 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 685 ).
اور ايك روايت ميں ہے كہ:
" اور حضر كى نماز زيادہ كر دى گئى "
اور انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ مدينہ سے مكہ كى طرف گئے تو واپس آنے تك دو دو ركعت نماز ادا كى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1081 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 693 ).
ليكن اگر وہ امام كے ساتھ نماز ادا كرے تو پورى نماز ادا كرتا ہوا چار ركعت پڑھےگا چاہے اس نے امام كے ساتھ ابتدا سے نماز پالى يا پھر كچھ رہ گئى كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" جب تم اقامت سنو تو نماز كى طرف جاؤ اور تم پر وقار اور سكون ہونا چاہيے، تم جلدى بازى نہ كرو، جو ملے وہ ادا كر لو، اور جو رہ جائے وہ مكمل كر لو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 636 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 602 ).
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان:
" جو پا لو وہ ادا كرو، اور جو رہ جائے وہ مكمل كرو "
كا عموم ان مسافروں كو بھى شامل ہے جو چار ركعت پڑھانے والے امام كے پيچھے نماز ادا كرتے ہيں.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے دريافت كيا گيا:
جب مسافر اكيلا ہوتا ہے تو وہ دو ركعت كيوں ادا كرتا ہے، اور جب مقيم كے پيچھے نماز ادا كرے تو چار ركعت كيوں ادا كرتا ہے؟
تو ان كا جواب تھا:
" يہ سنت ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 688 ) مسند احمد حديث نمبر ( 1865 ).
اور مسافر سے نماز باجماعت كى ادائيگى ساقط نہيں ہوتى؛ كيونكہ اللہ تعالى نے تو قتال اور لڑائى كى حالت ميں بھى نماز باجماعت ادا كرنے كا حكم ديا ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور جب آپ ان ميں ہوں اور ان كے ليے نماز كھڑى كرو تو آپ كے ساتھ ايك گروہ نماز ادا كرے، اور چاہيے كہ وہ اپنا اسلحہ ساتھ ركھيں، اور جب وہ سجدہ كر ليں تو وہ ہٹ كر تمہارے پيچھے آ جائيں، اور پھر وہ گروہ آئے جس نے نماز ادا نہيں كى تو وہ آپ كے ساتھ نماز ادا كرے النساء ( 102 ).
اس بنا پر اگر مسافر اپنے شہر كے علاوہ كسى دوسرے شہر ميں ہو تو اس كے ليے اذان سننے كے بعد مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنے كے ليے حاضر ہونا واجب ہے، ليكن اگر مسجد دور ہو، يا پھر اس كى رفاقت فوت ہونے كا خدشہ ہو، كيونكہ عمومى دلائل اذان يا اقامت سننے والے پر نماز باجماعت ادا كرنے پر دلالت كرتے ہيں " اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى و رسائل الشيخ ابن عثيمين ( 15 / 252 ).
اور شيخ رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال بھى دريافت كيا گيا:
اگر ميں سفر ميں اذان سنوں تو كيا ميرے ليے مسجد ميں نماز ادا كرنا واجب ہے، اور اگر ميں اپنى جگہ پر ہى نماز ادا كروں تو كيا اس ميں كچھ ہے ؟
اور اگر سفر كى مدت مسلسل چار يوم ہو تو كيا ميں نماز قصر كروں يا كہ مكمل ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" اگر آپ اپنے پڑاؤ والى جگہ پر ہوں اور اذان سنيں تو آپ پر مسجد ميں حاضر ہونا واجب ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جماعت ترك كرنے كى اجازت طلب كرنے والے شخص كو فرمايا تھا:
" كيا تم اذان سنتے ہو ؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو پھر اسے قبول كرو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 653 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے اذان سنى اور وہ نہ آيا تو بغير عذر كے اس كى نماز ہى نہيں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 217 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور كوئى ايسى دليل نہيں جو اس حكم سے مسافر كى تخصيص پر دلالت كرتى ہو، ليكن اگر آپ كے مسجد جانے ميں كوئى سفرى مصلحت فوت ہونے كا خدشہ ہو، مثلا آپ كو آرام اور نيند كے محتاج ہوں اور اپنے پڑاؤ والى جگہ ہى نماز ادا كرنا چاہيں تا كہ سو سكيں، يا پھر خدشہ ہو كہ اگر آپ مسجد جائيں تو امام نماز دير سے كھڑى كرے اور آپ سفر كرنا چاہيں، اور فلائٹ نكلنے كا خدشہ ہو وغيرہ ذالك.
ديكھيں: مجموع فتاوى و رسائل للشيخ ابن عثيمين ( 15 / 422 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات