ميں جہاز ران كمپنى ميں كام كرتا ہوں اور آنے جانے والى كشتيوں كے معاملات نپٹانے ہوتے ہيں، ان بحرى جہازوں ميں سے اكثر جہاز اجنبى ہوتے ہيں اور ان ميں كام كرنے والے بھى غيرمسلم كمپنى كا مالك بعض اوقات ان بحرى جہازوں كو خنزير كا گوشت فروخت كرتا ہے، اور اس كا منافع ہميں تقسيم كرديتا ہے، ہم ملازم ہيں اور اس رقم كو اس ليے قبول كر ليتے ہيں كہ گوشت غير مسلموں كو فروخت ہوا ہے، اور قرآن و سنت ميں كوئى نص وارد نہيں كہ غير مسلم كو خنزير كا گوشت فروخت كرنا حرام ہے.
اور اسى طرح يہ بھى صحيح نہيں كہ ہم شراب كوقياس بنائيں، اس ليے كہ خنزير كا گوشت اور شراب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وقت سے پايا جاتا ہے، اگر اس كى حرمت چاہتے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ شراب كى طرح اس پر بھى لعنت كرتے، ليكن كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جنہوں نے اس كے حلال ہونے ميں شك ڈالنا شروع كرديا ہے، تو كيا يہ حلال ہے يا حرام ؟
اور اس ليے بھى كہ ہم اس كى فروخت ميں شريك نہيں ہوئے تو اس منافع كو لينے ميں ہميں كوئى نقصان بھى نہيں، كيونكہ كمپنى كا مالك يہ رقم ہميں بطور صدقہ ديتا ہے، تو كيا ہم مال كى اصليت كا علم ہونے كے باوجود اس صدقہ كو قبول كرسكتے ہيں؟
اور كيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى صريح اور واضح حديث ذكر ہے جس ميں غير مسلموں كو خنزير كا گوشت فروخت كرنے كى حرمت كى تاكيد بيان ہوئى ہو، اس ليے كہ اہل كتاب پر تو خنزير كا گوشت حرام نہيں كيا گيا ؟
كيا غير مسلموں كو حرام اشيا مثلا خنزير كا گوشت فروخت كرنا جائز ہے ؟
سوال: 40651
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
كسى بھى شخص كے جائز نہيں كہ وہ بغير علم دين اسلام ميں فتوى دينا شروع كردے، بلكہ اسے اس چيز كى خطرناكى كا علم ہونا ضرورى ہے، اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے ايسے فعل كو حرام قرار ديتے ہوئے فرمايا:
كہہ ديجئے كہ البتہ ميرے رب نے صرف ان تمام فحش باتوں كو حرام كيا ہے جو علانيہ ہيں، اور جو پوشيدہ ہيں، اور ہر گناہ كى بات كو اور كسى پر ناحق ظلم و زيادتى كرنے كو، اور اس بات كو كہ تم اللہ تعالى كے ساتھ كسى ايسى چيز كو شريك ٹھراؤ جس كى اللہ تعالى نے كوئى سند نازل نہيں كى، اور اس بات كو كہ تم لوگ اللہ تعالى كے ذمہ ايسى بات لگادو جس كو تم جانتے تك نہيں الاعراف ( 33 ).
لہذا كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ كہتا پھر: يہ حلال ہے اور يہ حرام ہے، اور اس كے پاس اس كے حرام يا حلال ہونے كى كوئى صحيح دليل بھى نہ ہو، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور كسى چيز كو اپنى زبان سے جھوٹ موٹ نہ كہہ ديا كرو كہ يہ حلال ہے اور يہ حرام ہے، تا كہ اللہ تعالى پر جھوٹ باندھ لوسمجھ لو كہ اللہ تعالى پر بہتان بازى كرنے والے كاميابى سے محروم ہى رہتے ہيں النحل ( 116 ).
دوم:
خنزير كا گوشت فروخت كرنا حرام ہے، چاہے كسى مسلمان شخص كو فروخت كيا جائے يا كافر كو، اس كے دلائل مندرجہ ذيل ہيں:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
آپ كہہ ديجئے كہ جو كچھ احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ان ميں تو ميں كسى كھانے والے كے ليے كوئى چيز حرام نہيں پاتا جسے وہ كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو، يا كہ بہتا ہوا خون، يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو الانعام ( 145 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك عظيم قاعدہ سكھاتے ہوئے فرمايا:
" بلا شبہ جب اللہ تعالى نے كسى چيز كو حرام كيا ہے تو اس كى قيمت بھى حرام كردى "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3488 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " غايۃ المرام " ( 318 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
2 – جابر بن عبداللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے مكہ مكرمہ ميں فتح مكہ والے سال رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" بلاشبہ اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) نے شراب، اور مردار، اور خنزير اور بتوں كى خريد و فروخت حرام كر دى ہے "
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا گيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہميں مردار كى چربى كے متعلق بتائيں كيونكہ يہ چربى كشتيوں كو لگائى جاتى ہے، اور اس سے چمڑا رنگا جاتا ہے اور لوگ اس سے چراغ روشن كرتے ہيں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہيں يہ حرام ہے"
پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس وقت فرمايا:
" اللہ تعالى يہوديوں كو تباہ و برباد كرے جب اللہ تعالى نے اس كى چربى حرام كى تو انہوں نے چربى كو پگھلايا اور فروخت كر كے اس كى قيمت كھالى"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1212 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1581 )
جملوہ: كا معنى ہے كہ انہوں نے چربى كو پگھلا ليا.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
مردار، اور شراب، اور خنزير كے بارہ ميں مسلمان اس ميں سے ہر ايك كى حرمت پر متفق ہيں اور اس كى حرمت پر اجماع ہے.
قاضى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حديث كے ضمن ميں يہ بھى آتا ہے كہ: جس چيز كا كھانا اور اس سے نفع حاصل كرنا جائز نہ ہو اس كا فروخت كرنا بھى جائز نہيں، اور نہ ہى اس كى قميت كھانى جائز ہو گى، جيسا كہ حديث ميں مذكور چربى كے متعلق ہے.
ديكھيں: شرح مسلم ( 11 / 8 ).
ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى شراب كى حرمت ميں احاديث ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:
ان سب احاديث سے حاصل يہ ہوا كہ: اللہ تعالى نے جس چيز سے نفع اٹھانا حرام كيا تو اس كى خريد و فروخت اور اس كى قيمت كھانى بھى حرام ہو گى ، جيسا كہ اس كى صراحت كرتے ہوئے فرمايا:
" بلاشبہ جب اللہ تعالى نے كسى چيز كو حرام كيا تو اس كى قيمت بھى حرام كردى "
اور يہ عام اور جامع كلمہ ہے جو ہر اس چيز كو دور كرديتا ہے جس سے نفع حاصل كرنا حرام ہو، اس كى دو قسميں ہيں:
پہلى قسم:
جس سے نفع حاصل ہواور وہ چيز بھى بعينہ باقى رہے، مثلا بت، اس سے مقصود منفعت اللہ تعالى كے ساتھ شرك ہے اور يہ على الاطلاق سب سے بڑى معصيت اور گناہ ہے، اور اس كے ساتھ شركيہ كتب، اور جادو، اور بدعت و گمراہى بھى ملحق ہوتى ہے، اور اسى طرح حرام تصاوير اور حرام كردہ لہو و لعب كے آلات موسيقى وغيرہ بھى، اور اسى طرح گانے والى لونڈيوں كى خريدارى بھى…
دوسرى قسم:
جس چيز سے نفع حاصل كيا جائے اور وہ چيز بھى ختم ہو جائے، جب اس كا سب سے بڑا مقصد حرام ہو تو اس كى خريد و فروخت بھى حرام ہو گى، جيسا كہ خنزير اور شراب اور مردار كى خريد و فروخت حرام ہے، باوجود اس كے كہ ان ميں سے بعض اشياء ميں – مثلا مجبور اور لاچار شخص كا مردار كھانا، اور شراب سے غصہ ختم كرنا، اور اور اس سے آگ بجھانا، اور كچھ لوگوں كے ہاں خنزير كے بالوں سے سلائى كرنا، اور خنزير كے بالوں اور چمڑے سے نفع اٹھانا اسے جائز كہنے والوں كے ہاں، – ليكن جب يہ مقصود نہ تھے تو اسے مد نظر نہيں ركھا گيا اور اس خريد و فروخت حرام كر دى گئى.
ليكن خنزير اور مردار كا سب سے بڑا مقصد كھانا تھا، اور شراب كا مقصد پينا ہے، تو ان ميں اس كے علاوہ كسى چيز كى طرف التفات بھى نہيں كيا گيا، اور جب نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ عرض كيا گيا كہ:
يہ بتائيں كہ يہ چربى كشتيوں كو لگائى جاتى ہے، اور اس سے چمڑا رنگا جاتا ہے، اور لوگ اس سے چراغ روشن كرتے ہيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس معنى كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا:
" نہيں يہ حرام ہے"
ديكھيں: جامع العلوم و الحكم ( 1 / 415- 416 ).
مستقل فتوى كميٹى سے سوال كيا گيا كہ:
كيا جب كسى مسلمان كو شراب اور خنزير نہ فروخت كيا جائے تو كيا اس كى تجارت كرنى جائز ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" جن كھانے وغيرہ كو اللہ تعالى نے حرام كيا ہے مثلا شراب، خنزير وغيرہ كى تجارت كرنى جائز نہيں اگرچہ يہ كفار كے ساتھ ہى كيوں نہ ہو؛ اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شراب پر اور شراب نوشى كرنے والے، اور اسے فروخت كرنے والے، اور اس كى خريدارى كرنے والے، اور اسے اٹھا كر لے جانے والے، اور جس كى طرف ليجائى جا رہى ہے اس پر، اور اس كى قيمت كھانے والے، اور اسے بنانے اور بنوانے والے پر لعنت فرمائى" اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 49 ).
سوم:
اور سائل كا يہ كہنا كہ: ( غير مسلموں كو خنزير فروخت كرنا حرام نہيں، اور قرآن و سنت ميں اسے غير مسلموں كو فروخت كرنے كى حرمت ميں كوئى نص نہيں ہے ) يہ قول صحيح نہيں، خنزير كى خريد و فروخت كى حرمت پر قرآن و سنت اور علماء كرام كا اجماع كے دلائل بيان كيے جا چكے ہيں، ان دلائل كا عموم مسلمانوں اور غير مسلموں كو خنزير كى بيع كى حرمت پر دلالت كرتا ہے، اس ليے كہ يہ دلائل بيع كى عام حرمت پر دلالت كرتے ہيں، اور مسلمان اور كسى غير مسلم كا فرق نہيں كرتے.
بلكہ اگر يہ كہا جائے كہ: اس كى بيع كى حرمت كا مقصد اصل ميں كفار پر فروخت كرنے كى حرمت ہے، تو ايسا كہنا كوئى بعيد نہ ہو گا، اس ليے مسلمان كے متعلق تو اصل يہى ہے كہ مسلمان شخص خنزير خريدتا ہى نہيں جب وہ يہ علم ركھتا ہے كہ اللہ تعالى نے اسے حرام قرار ديا ہے تو پھر وہ اس كا كيا كرے گا؟ !
اور اسى طرح سائل كا يہ كہنا: ( نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے ہى خنزير كا گوشت پايا جاتا ہے، اگر اس كى حرمت كا ارادہ كرتے تو اس پر بھى شراب كى طرح لعنت كرتے ) يہ بھى صحيح نہيں.
كيونكہ كسى چيز كى حرمت ميں يہ شرط نہيں كہ اس كام كے كرنے والے پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم لعنت كريں، بلكہ صرف اتنا ہى كافى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس سے منع فرما ديں، يا پھر يہ بتاديں كہ وہ حرام ہے، جيسا كہ خنزير كى بيع حرام كى.
چہارم:
اور رہا مسئلہ آپ كا يہ مال لينا، تو اس سلسلے ميں ہم يہى كہيں گے كہ يہ علم ہوجانے كے بعد كہ يہ رقم حرام كى ہے اس سے اجتناب كرنا اور دور رہنا ہى بہتر ہے.
خاص كر آپ كا يہ مال لينا تو تمہارى جانب سے كمپنى والے كے عمل پر اقرار كى طرح ہے، حالانكہ آپ كو چاہيے كہ مالك كو نصيحت كريں، اور اسے اس سے منع كريں اور روكيں، تا كہ وہ اس حرام كام سے رك جائے، اور پھر جو كوئى بھى كسى چيز كو اللہ تعالى كے ليے ترك كرتا ہے اللہ تعالى اسے اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز عطا فرماتا ہے.
اور جو رقم آپ حرمت كا علم ہونے سے قبل لے چكے ہيں ان شاء اللہ اس ميں كوئى حرج نہيں.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى اللہ تعالى كى جانب سے آئى ہوئى نصيحت سن كر رك گيا تو اس كے ليے وہى ہے جو گزر چكا، اور اس كا معاملہ اللہ تعالى كے سپرد البقرۃ ( 275 ).
آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 2429 ) اور ( 8196 ) كے جوابات ضرور ديكھيں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو رزق حلال اور بابركت رزق عطا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات