جب والد صاحب فوت ہوجائيں تو كيا ميري والدہ كوفوري طور پر تركہ تقسيم كرنا ضروري ہے اگرچہ ساري اولاد اس پر متفق ہوں كہ والدہ اپني موت تك وراثت كي مالك رہے ؟
جب ميري والدہ اپنا حصہ لےليں جو كہ نصف ہے ( اس ليے كہ وہ فعلا والد صاحب كے كاروبار ميں شريك ہيں ) اور باقي نصف ہم پر شرعيت كے مطابق تقسيم كر ديں توكيا وہ اپنےكسي بيٹے كوہديہ دےسكتي ہيں ؟
اور تخصيص كردوں كہ جب والدہ وراثت كےذاتي حصہ ميں سے اپنے كسي ايك بيٹے كو مكان خريد ديں تو كيا والدہ كي موت كےبعد يہ مكان بھي ان كي وراثت ميں شامل كركےتقسيم كرنا ضروري ؟
ہم يہ كس طرح ثابت كرسكتے ہيں كہ يہ مكان والدہ نے موت كےبعد بيٹوں ميں تقسيم ہونے كےليے نہيں چھوڑا بلكہ والدہ نےايك بيٹے كو ہديہ كيا تھا ؟
كيا يہ ممكن ہے كہ وہ اپني وصيت ميں يہ اضافہ كرديں ؟ اور كيا سب بھائيوں كا اس پر متفق ہونا اور دستخط كرنے ضروري ہيں ؟
باپ كےتركہ كي تقسيم اور والدہ تجارت ميں اس كےساتھ شراكت دار ہے
سوال: 4089
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
تركہ ميں اصل تويہي ہے كہ متوفي شخص كي تجھيز وتكفين كا خرچہ اور ميت كےذمہ قرضہ كي ادائيگي اور اگر اس نے وصيت كي ہو تواسے پورا كرنے كےبعد تركہ ورثاء ميں جلد تقسيم كرنا چاہيے تركہ كي تقسيم ميں تاخير بہت سي خرابيوں اور وارث كےليےنقصان كا باعث بنتي ہے اس ليے تركہ كي تقسيم ميں تاخير كرنا مكروہ ہے .
اور اگر ورثاء تقسيم كرنے ميں تاخير كرنے پر متفق ہوں تواس ميں كوئي حرج نہيں ، اور اگرآپ كي والدہ تمہارے والد كي تجارت ميں حصہ دارتھي تو وہ تجارت سے اپنا حصہ حاصل كرے ، اور آپ كےوالد كےحصہ ميں سے اسے آٹھواں حصہ ملےگا اس كےبعد اگر ميت كےوالدين نہ ہوں تو تمہارےليے مرد كو دو عورتوں كےبرابر ملےگا.
اور اگر آپ اور آپ كي والدہ سب يہ چاہتےہيں كہ معاملہ اسي طرح رہے اور تجارت بھي اسي طرح چلتي رہے تواس ميں بھي كوئي حرج نہيں ليكن ہر ايك كا حصہ معلوم ہونا ضروري ہے تاكہ جب بھي وہ مطالبہ كرے اسے اس كا حصہ ادا كرديا جائے .
اور والدہ كےليےاولاد ميں سے كسي ايك بيٹے كوہديہ دينا اور دوسروں كو نہ دينا جائز نہيں ہے بلكہ سب كوبرابر دينا ہوگا اس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے :
نعمان بن بشير رضي اللہ تعالي عنھما بيان كرتےہيں كہ ميرے والد نے كچھ مال مجھے صدقہ كيا تو ميري والدہ كہنےلگيں ميں اس پراس وقت راضي ہوں گي جب آپ اس پر نبي صلي اللہ عليہ وسلم كوگواہ بنائيں گے ، توميرے والد مجھے لے كر نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےپاس گئےتا كہ ميرے صدقہ پر انہيں گواہ بنائيں
تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم انہيں فرمانےلگے: كيا تونے اپني ساري اولاد كےساتھ ايسا ہي كيا ہے؟ تو انہوں نےجواب نفي ميں ديا ، رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا : اللہ تعالي سےڈرو اور اس كا تقوي اختيار كرتےہوئے اپني اولاد كےمابين عدل وانصاف سےكام لو ، تو ميرے والد نے وہ صدقہ واپس كرليا . متفق عليہ .
باقي سوال كےجواب اور اس كي تفصيل جاننےكےليے آپ سوال نمبر ( 1511 ) كےجواب كا مطالعہ كريں ، اور ماں كےليےموت كاپنے كسي بھي وارث كےليے كسي بھي چيز كي وصيت كرني جائز نہيں كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے : وارث كےليے وصيت نہيں . اسے پانچوں نے ابو امامہ رضي اللہ تعالي عنہ سےروايت كيا ہے .
اور اگر ماں نےوصيت كربھي دي تو شرعيت كے مخالف ہونے كي وجہ سے اس پر عمل نہيں ہوگا . واللہ اعلم
ديكھيں : كشف القناع ( 4 / 342 ) اور غايۃ المنتھي ( 2 / 335 ) المغني ( 5 / 604 )
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد