کیا اللہ تعالی کے اسمائے حسنی صرف ننانوے ہیں؟ یا انکی تعداد ننانوے سے زیادہ ہے؟
اللہ تعالی کے صرف ننانوے اسمائے حسنی نہیں ہیں۔
سوال: 41003
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بخاری (2736) اورمسلم (2677) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (اللہ تعالی کے ننانوے [یعنی]ایک کم سو نام جس نے یاد کئے جنت میں داخل ہوجائے گا)
کچھ علمائے کرام (جیسے ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ) نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالی کے نام ننانوے ہی ہیں، دیکھیں: "المحلى" (1/51)
جبکہ اکثر اہل علم نے ابن حزم رحمہ اللہ کی بات سے اتفاق نہیں کیا، بلکہ کچھ علمائے کرام (جیسے نووی رحمہ اللہ) نے علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی صرف ننانوے نہیں ہیں۔ گویا کہ انہوں نے ابن حزم رحمہ اللہ کے موقف کو شاذ سمجھا ہے، اور اسکو قابل دھیان نہیں سمجھا۔
ان علمائے کرام نے اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کے لاتعداد و بے شمار ہونے کیلئے دلیل مسند احمد (3704) کی روایت سے لی ہے جسے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب کسی شخص کو کوئی دکھ ، یا غم لاحق ہو تو وہ کہے: اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ ، وَابْنُ عَبْدِكَ ، وَابْنُ أَمَتِكَ ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي ، وَنُورَ صَدْرِي ، وَجِلَاءَ حُزْنِي ، وَذَهَابَ هَمِّي)
ترجمہ: یا اللہ! میں تیرا بندہ ہوں ، اور تیرے بندے اور باندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، میری ذات پر تیرا ہی کا حکم چلتا ہے، میری ذات کے متعلق تیرا فیصلہ سراپا عدل و انصاف ہے، میں تجھے تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو توں نے اپنے لیے خود تجویز کیا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ نام سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا، کہ توں قرآن کریم کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور،غموں کیلئے باعث کشادگی اور پریشانیوں کیلئے دوری کا ذریعہ بنا دے۔
تو اللہ تعالی اسکے سب دکھڑے اور غم مٹا دیتا ہے، اور اسکی مشکل کشائی فرماتا ہے۔ تو کسی نے کہا: رسول اللہ! کیا ہم یہ دعا سیکھ نہ لیں؟ آپ نے فرمایا: (کیوں نہیں، جو بھی اسے سنے اسے چاہئے کہ اس دعا کوسیکھ لے)
البانی نے اسے سلسلة صحيحة (199) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کچھ اسمائے حسنی ایسے بھی ہیں جنہیں اللہ نے اپنے پاس علم غیب میں محفوظ رکھا ہے، اور اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو بھی انکا علم نہیں ہے، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ اسمائے حسنی کی تعداد صرف ننانوے نہیں ہےبلکہ اس سے زیادہ ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (6/374) میں اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
"حدیث کے اس جملے سے ثابت ہوتا ہے کہ اسمائے حسنی ننانوے سے زیادہ ہیں"
اسی طرح (22/482) پر بھی فرماتے ہیں:
"خطابی وغیرہ کا کہنا ہے کہ: اسکا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے کچھ نام ایسے ہیں جو اللہ نے کسی کو نہیں بتلائے، اور حدیث (اللہ تعالی کے ننانوے نام جس نے یاد کئے جنت میں داخل ہوجائے گا) کا مطلب بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی کہنے والا کہے: "میرے پاس صدقہ کیلئے ہزار درہم ہیں"چاہے اس کے پاس ہزار درہم سے زیادہ مال موجود ہو، پھر اللہ تعالی نے بھی قرآن مجید میں فرمایا:
( وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا ) یعنی: اللہ تعالی کے اسمائے حسنی ہیں، انکے واسطے سے اللہ کو پکارو۔
چنانچہ اللہ تعالی نے مطلقا اسمائے حسنی کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیا، اور یہ نہیں کہا کہ: اسمائے حسنی صرف ننانوے ہی ہیں" انتہی
نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے، اور کہا:
"تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث میں اسمائے حسنی کی تعداد کے بارے میں حد بندی بیان نہیں کی گئی، چنانچہ اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اللہ تعالی کے ننانوے ناموں کے علاوہ کوئی نام ہی نہیں، بلکہ اس حدیث کا مطلب ہے کہ جو ننانوے نام یاد کریگا وہ جنت میں جائے گا، چنانچہ یہاں پر مقصود یہ ہے کہ ننانوے نام یاد کرنے والا جنت میں جائے گا، جبکہ ناموں کی تعداد ذکر کرنا مقصود نہیں ہے" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اسے اس بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا:
"اللہ کے نام لا تعداد وبےشمار ہیں، اس بات کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو کہ صحیح ثابت ہے: (اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ ، وَابْنُ عَبْدِكَ ، وَابْنُ أَمَتِكَ) ۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ)[مکمل ترجمہ اوپر گزر چکا ہے] چنانچہ جو چیز اللہ کے علم غیب میں محفوظ ہو اسکے بارے میں جاننا نا ممکن ہے، اور جو چیز معلوم نہ ہو اسکو شمار نہیں کیا جاسکتا۔
جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (اللہ تعالی کے ننانوے [یعنی]ایک کم سو نام جس نے یاد کئے جنت میں داخل ہوجائے گا)
اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی کے ننانوے کے علاوہ نام ہی نہیں ہیں، بلکہ اسکا مطلب ہے کہ جس شخص نے اللہ کے ناموں میں سے ننانوے نام یاد کئے تو وہ جنت میں داخل ہوگا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (مَنْ أَحْصَاهَا) [عربی عبارت کا لفظ]پہلے ہی جملے کی تکمیل ہے، علیحدہ سے نیا جملہ نہیں ہے[اسی لئے حدیث کا ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے، مترجم] اور یہ بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی کہے: "میرے پاس سو گھوڑے ہیں جو میں نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کیلئے تیار کئے ہیں" اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسکے پاس صرف سو ہی گھوڑے ہیں، بلکہ اسکا مطلب ہے کہ یہ سوگھوڑے جہاد کیلئے تیار کئے گئے ہیں" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثيمين" (1/122) .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب