كيا فوت شدہ والدين كى جانب سے حج كرنا افضل ہے يا كہ ميں اسے مساجد كى تعمير اور جھاد في سبيل اللہ ميں صرف كردوں، يہ علم ميں رہے كہ والدين نے فرضى حج كر ليا تھا ؟
كيا ميت كى جانب سے حج كرنا افضل ہے يا صدقہ كرنا ؟
سوال: 42088
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
والدين كے ساتھ سب سے اچھى اور بہترين نيكى اور حسن سلوك وہ ہے جس كى راہنمائى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمائى ہے، اور وہ ان كے ليے دعائے استغفار كرنا، اور والدين كے دوست و احباب كى عزت و تكريم اور ان سے حسن سلوك كرنا ہے، اور ان رشتہ داروں سے صلہ رحمى كرنا جن كے ساتھ آپ كا تعلق والدين كى بنا پر ہى ہے.
جب ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كے متعلق دريافت كرتے ہوئے كہا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم والدين كى موت كے بعد كيا ميرے ذمہ ان كے ليے كوئى نيكى ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا جواب ديتے ہوئے اسى كو بيان كيا تھا.
اور رہا مسئلہ ان كى جانب سے حج اور قربانى اور صدقہ كرنے كا تو بلاشك يہ جائز ہے، اور ہم يہ نہيں كہتے كہ ايسا كرنا حرام ہے، ليكن افضل نہيں بلكہ مفضول ہے، جبكہ ان كے ليے دعاء كرنا اس سے بھى افضل ہے، آپ وہ اعمال جو اپنے والدين كے ليے كرنا چاہتے ہيں وہ اپنے ليے كريں، حج اپنے ليے كريں، صدقہ اپنے ليے كريں، قربانى اپنے اور اپنے اہل و عيال كى جانب سے كريں، مساجد اور جھاد في سبيل اللہ ميں اپنى جانب سے خرچ كريں.
كيونكہ ہو سكتا ہے آپ كو ان اعمال كى ضرورت ہو اور آپ بھى اس كے محتاج ہوں جس طرح والدين اس كے محتاج ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے والدين كے سلسلے ميں آپكى راہنمائى اس سے زيادہ نفع مند اور افضل كى طرف فرما دى ہے، كيا آپ يہ خيال كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ غائب رہا كہ آپ ان كى جانب سے حج اور صدقہ كريں ؟!
نہيں كبھى نہيں ہم ايسا عقيدہ نہيں ركھتے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس سے بھول گئے اور آپ يہ غائب رہا، ہميں معلوم ہونا چاہيے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ان چار اشياء كو اختيار كرنا: ان كے ليے دعاء كرنا، اور بخشش كى دعا كرنا، والدين كے دوست واحباب كى عزت و تكريم كرنا اور صلہ رحمى كرنا ہى اصل اور حقيقى نيكى ہے، اور اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ نے فرمايا:
" جب انسان كو موت آجاتى ہے تو اس كے اعمال كا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، ليكن تين قسم كے علم جارى رہتے ہيں: صدقہ جاريہ، يا كوئى نفع مند علم، يا نيك اولاد جو اس كے ليے دعاء كرتى رہے "
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا كہ: يا نيك بچہ اس كى جانب سے صدقہ كرتا رہے، يا اس كى جانب سے قربانى كرتا ہو، يا اس كى جانب سے حج كرے، يا اس كى جانب سے روزہ ركھے، حالانكہ حديث تو اعمال كے متعلق ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميت كے ليے ان اعمال كرنے كى بجائے دعاء كرنے كا حكم ديا، اور ہم گواہى ديتے ہيں اور ہميں يقينى علم ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كسى افضل چيز كو چھوڑ كر كسى دوسرى چيز كى طرف نہيں جاتے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مخلوق ميں سے زيادہ علم ركھنے والے، اور سب سے زيادہ نصيحت كرنے والے ہيں، اس ليے اگر صدقہ يا قربانى يا نماز يا حج مشروع ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كى راہنمائى فرماتے.
ميں كہتا ہوں: اس طرح كے مسائل ميں جس ميں عام لوگ افضل كو چھوڑ كر غير افضل كو اختيار كرنے كے راستے پر چل نكليں تو طالب علم كو يہ بيان كرنا اور اس كى وضاحت كرنى چاہيے، اور وہ يہ كہے:
مجھے ايك نص ايسى پيش كرو جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہو كہ انسان اپنے فوت شدہ والدين كے ليے نفلى روزے يا صدقہ كرے، كبھى بھى ايسى كوئى نص نہيں مل سكتى، ليكن نبى كريمص صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو شخص فوت ہو جائےاور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كى جانب سے اس كا ولى روزے ركھے گا "
تو اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ ميت كى جانب سے ہم فرضى روزے ركھيں گے، ليكن نفلى روزہ كبھى بھى نہيں، آپ سارى سنت كے اوراق پلٹ كر ديكھيں كہ كيا شروع سے ليكر آخر تك آپ كو يہ ملتا ہے كہ كہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ حكم ديا ہو كہ انسان اپنے والدين كى جانب سے صدقہ كرے، يا پھر والدين كى جانب سے نفلى روزے ركھے، يا نفلى حج كرے، يا پھر رفاہ عامہ كے ليے اپنے والدين كى جانب سے كچھ رقم خرچ كرے ؟
نہيں كبھى بھى نہيں ايسا كوئى حكم نہيں ملتا، انتہائى يہ ہو سكتا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا اقرار كيا اور كسى چيز كا اقرار اس كى مشروعيت نہيں، جب سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنا باغ والدہ كى جانب سے صدقہ كرنے كى اجازت طلب كى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جى ہاں "
اور اسى طرح ايك شخص آيا اور كہنے لگا: ميرى والدہ كو اچانك موت آ گئى ميرا خيال ہے كہ اگر وہ بات كرتى تو صدقہ كرتى، تو كيا ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جى ہاں "
ليكن كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كو حكم ديا ہے كہ وہ اللہ تعالى كے ليے نفلى كام كر كے اسے اپنے فوت شدگان كے ليے كريں؟
يہ نہيں ملتا، اور اگر كسى شخص كو ايسى كوئى دليل ملے تو وہ ہميں بھى اس كا تحفہ ضرورى دے، ليكن صرف واجب چيز تو ملتى ہے، اور واجب پر عمل كرنا ضرورى ہے " انتہى .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 267 )