ميرى بہن مررہى ہے، اور ميرے خيال ميں وہ آئندہ ماہ تك زندہ نہيں رہے گى, واللہ اعلم، اسنے اپنى زندگى ميں بہت كچھ كيا ہے جس پر اب وہ نادم بھى ہے اور اس سے توبہ بھى كر چكى ہے، اور ہميشہ وہ يہ تمنا كرتى ہے كہ وہ وقت آئے كہ اپنے كيے كو صحيح كر سكے، وہ اپنى موت سے قبل چند ايك اشياء جاننا چاہتى ہے:
اس وجہ سے كہ اللہ تعالى جن پررحم كرتا اور انہيں جنت ميں داخل كرتا ہے انہيں وہ جو چاہيں عطا كرتا ہے، اور ان كے مطالبات پورى ہوتے ہيں، تو كيا اگر وہ يہ مطالبہ كريں كہ وہ ماضى كى طرف پلٹ كر اپنے ماضى كو درست كرليں اور اپنى غلطيوں كو صحيح كرليں اگرچہ جنت ميں ہى تو ان كا يہ مطالہ پورا ہو گا ؟
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے كہ:
” اس نے اپنے بندوں كے ليے جنت ميں وہ كچھ تيار كيا ہے جو كسى آنكھ نے ديكھا تك نہيں، اور كسى كان نے سنا تك نہيں، اور نہ ہى كسى انسان كے دل ميں اس كا كھٹكا تك ہوا ہے”
تو كيا اللہ تعالى جنتيوں كو ہر وہ چيز عطا كرے گا جو ان كے دل ميں آئے گى، اور اسے وہ دنيا ميں حاصل نہ كرسكے ہونگے، اور خاص كرجو كچھ ميرى بہن كا مطالبہ ہے ؟
گزارش ہے كہ جواب جلد ديں، اس ليے كہ ميرےخيال ميں وہ چند ہفتوں سے زيادہ زندہ نہيں رہے گى. واللہ اعلم ؟
كيا اعمال صالحہ كرنے كے ليے دنيا ميں واپس آنا ممكن ہے ؟
سوال: 42464
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ تعالى آپ پر رحم كرے آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ عمريں اور موت اللہ سبحانہ وتعالى كے ہاتھ ميں ہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور ہر مقرر كردہ وعدے كى ايك لكھت ہے الرعد ( 38 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور كوئى نفس يہ نہيں جانتا كہ وہ كونسى زمين ميں فوت ہوگا لقمان ( 3 ).
اور انسان كے ليے يہ ممكن ہى نہيں كہ اس كے علم ميں يہ آجائے كہ وہ كب فوت ہوگا، يہ تو صرف گمان ہيں جو بعض اوقات سچے ہو جاتے ہيں اور بعض اوقات جھوٹے.
اور بيمارى كا يہ معنى نہيں كہ يہ شخص جلد مر جائےگا، جس طرح نوجوانى اور طاقت كا معنى يہ نہيں كہ يہ شخص بہت زيادہ عرصے تك زندہ رہے گا.
كتنے ہى ايسے بيمار ہيں جن كے بارہ ميں لوگوں كو توقع تھى كہ وہ عنقريب مر جائےگا، ليكن وہ ايك لمبا عرصہ زندہ رہا، اور كتنے ہى صحيح اور صحت مند شخص ہيں جنہيں اچانك موت آگئى.
ايك شاعر نے كيا ہى خوب اور سچ كہا ہےكہ:
تقوى كا توشہ تيار كرلو كيونكہ تمہيں نہيں معلوم كہ رات ہونے كے بعد تم فجر تك زندہ بھى رہ سكو گے كہ نہيں.
كتنے ہى نوجوان ہيں جو صبح و شام ہنستے اورمسكراتے پھرتے ہيں، حالانكہ ان كے كفن تيار ہو چكے ہيں اور انہيں علم ہى نہيں.
اور كتنے ہى بچے ہيں جن كى لمبى عمر كى اميد ركھى جاتى ہے، ليكن ان كے جسم قبركى اندھير كوٹھرى ميں داخل كيے جاچكے ہيں.
اور كتنى ہى دلہنيں ايسى ہيں جو ان كے خاوندوں كے ليے تيار كى گئيں اور ان كى روحيں قدر والى رات ميں ہى قبض كر لى گئيں.
اور كتنے ہى تندرست و توانا بغير كسى بيمارى كے مرگئے، اوركتنے ہى مريض ايسے ہيں جو ايك لمبى مدت تك زندہ رہے.
مومن شخص سے تو يہى مطلوب ہے كہ وہ ہر وقت توبہ اور اعمال صالحہ كے ساتھ موت كى تيارى ركھے.
ابن ماجۃ رحمہ اللہ تعالى نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھا تو ايك انصارى شخص نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اورسلام كرنے كے بعد كہنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كونسا مومن افضل ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ان ميں سے سب سے اچھے اخلاق كامالك.
اس انصارى نے دريافت كيا: كونسا مومن دانا اور عقلمند ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ان ميں سے سب سے زيادہ موت كو ياد كرنے والا، اور ان ميں سب سے بہتر وہ ہے جو موت كے بعد كى تيارى كرے، يہى عقلمند ہيں”
سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 4259 ) عراقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس كى سند جيد ہے. اھـ
اورعلامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجۃ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اللہ تبارك وتعالى كا شكر ہے كہ اس نے آپ كى بہن كو اپنےكيے پر توبہ اور ندامت كى توفيق بخشى ہے.
اور ہم اسے خوشخبرى ديتے ہيں كہ اگر وہ اپنى توبہ ميں سچى ہوئى تو اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرمائےگا، اور اس كى برائياں نيكيوں اور حسنات ميں بدل دےگا.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
سوائےان لوگوں كے جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك كام كريں، ايسے لوگوں كے گناہوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے الفرقان ( 70 ).
آپ سوال نمبر ( 14289 ) كا جواب ضرور ديكھيں.
دوم:
جب مومن جنت ميں داخل ہوگا تو اللہ تعالى اسے ہر وہ چيز عطا كرے گا جس كى مومن كو تمنا ہوگى، بلكہ اسے اس كى تمنا سے بھى زيادہ عطا كيا جائےگا.
فرمان بارى تعالى ہے:
ان كى چاروں طرف سے سونے كى ركابياں اور سونے كے گلاسوں كا دور چلايا جائےگا، ان كے جى جس چيز كى خواہش كرينگے اور جس سے ان كى آنكھيں لذت پائيں، سب وہاں ہوگا، تم اس ميں ہميشہ رہوگےالزخرف ( 71 ).
اور امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ اور ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہما سے ايك لمبى حديث روايت كى ہے جسميں آخرى جنتى كے جنت ميں داخل ہونے كا بيان ہے كہ اللہ تعالى اسے فرمائےگا:
” خواہش اورتمنا كرو، تو وہ تمنا اور خواہش كرےگا، حتى كہ اس كى خواہش ہى ختم ہو جائےگى، تو اللہ عزوجل فرمائےگا:
” اس اس طرح، اور اس كا رب اسے ياد دہانى كرانے لگےگا، حتى كہ جب اس كى تمنا اور خواہش ختم ہو جائےگى تو اللہ تعالى فرمائےگا:
” تجھے يہ بھى اور اتنا اور بھى ملےگا”
ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ نے ابو ہريرۃ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہا:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اللہ تعالى فرمائےگا: تجھے يہ بھى اور اس سے دس گنا زيادہ ديا جائےگا، تو ابو ہريرۃ رضى اللہ تعالى كہنے لگے:
مجھے تو ياد نہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ فرمايا تھا: صرف اتنا ہے كہ آپ نے فرمايا:
” تجھے يہ بھى اور اس جتنا اور ديا جائےگا”
ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: ميں نےرسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا كہ تجھے يہ بھى اوراس سے دس گنا زيادہ ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 806 )
ليكن جب مومن دنيا ميں واپس آنے كى خواہش اور تمنا كرےگا تو اس كى كا مطالبہ تسليم نہيں كيا جائےگا، كيونكہ اللہ تعالى يہ فيصلہ فرما چكا ہے كہ دنيا ميں كوئى بھى شخص واپس نہيں آسكتا.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
جس بستى كو ہم نے ہلاك كرديا ہے اس كے ليے دنيا ميں واپس آنا حرام ہے الانبياء ( 95 ).
يعنى جن بستى والوں كو اللہ تعالى نے ہلاك كر ديا ان كے ليے دنيا ميں واپس آنا ممنوع اور ناممكن ہے، تا كہ وہ اپنى كوتاہيوں اور غلطيوں كا ازالہ كر سكيں.
ديكھيں: تفسير السعدى ( 868 ).
اور بخارى اور مسلم رحمہما اللہ تعالى نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ نے فرمايا:
” جنت ميں جانے والوں ميں سے شہيد كے علاوہ كوئى اور شخص دنيا ميں واپس آنے اور جو كچھ وہاں ہے اسے حاصل كرنے كى خواہش نہيں كرےگا، شہيد نے جو عزت و تكريم ديكھى اس كى بنا پر وہ يہ خواہش اور تمنا كرےگا كہ اسے دنيا ميں واپس بھيجا جائے تو وہ دس بار اللہ تعالى كےراستےميں قتل ہو”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2817 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1877 )
ليكن اس كى بات تسليم نہيں كى جائےگى.
ترمذى اور ابن ماجۃ رحمہما اللہ تعالى نے جابر بن عبداللہ بن حرام رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ جنگ احد والے دن مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ملے اور فرمانے لگے:
” اے جابر رضى اللہ تعالى عنہ، ميں تجھے يہ نہ بتاؤں كے اللہ تعالى نے تيرے والد كو كيا فرمايا ؟
انہوں نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ” اللہ تعالى نے كبھى بھى كسى سے پردہ ہٹا كر بات چيت نہيں كى، ليكن تيرے والد سے بالكل آمنے سامنے بغير كسى پردے اور ايلچى كے بات كى اور فرمايا: ميرے بندے ميرے سامنے تمنا اور خواہش كرو ميں تجھے نوازوں گا، تو اس نے كہا: اے ميرے رب مجھے زندہ كر ميں تيرے راستہ ميں دوبارہ لڑائى كرونگا، تو اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا: ميرا يہ پہلے سے فيصلہ شدہ امر ہے كہ دنيا كى طرف دوبارہ لوٹا نہيں جاسكتا، تو اس نے كہا: اے ميرے رب ميرے پچھلوں كو يہ بتا دو:
تو اللہ سبحانہ وتعالى نے يہ آيت نازل فرمادى:
جو لوگ اللہ تعالى كے راستے ميں قتل كر ديے گئے ہيں تم انہيں مردہ نہ سمجھو، بلكہ وہ تو اپنے رب كے ہاں زندہ ہيں اور انہيں رزق ديا جا رہا ہے.جامع ترمذى حديث نمبر ( 3010 ) سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 190 ). علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجۃ ميں اسے صحيح قرارديا ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى بہن اور سب مسلمانوں پر احسان كرتے ہوئے انہيں سچى توبہ كى توفيق عطا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب