ميں نے سوال نمبر ( 4569 ) كا جواب پڑھا اور جواب ميں شيخ نے دعا كى ہے كہ اللہ تعالى رافضى شيعہ كو ہدايت سے نوازے، تو كيا اس لائق ہے؟
كيونكہ مشركوں كے ليے دعا كرنا جائز نہيں ؟
كفار كے ليے ہدايت كي دعا كرنا
سوال: 43164
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہم سوال كرنے والے بھائى كا شكريہ ادا كرتے ہيں كہ اس نے اس كا اہتمام كيا اور بعض جوابات ميں پائے جانے والے اشكالات كے متعلق سوال كيا ہے.
دوم:
رافضى ( شيعہ ) كے متعلق حكم اور ان كے بعض اقوال جاننے كے ليے سوال نمبر ( 1148 ) كے جواب كا مطالعہ كريں .
سوم:
اس ميں كوئي شك و شبہ نہيں كہ مشركوں كے ليے استغفار اور بخشش طلب كرنا حرام ہے، اور اس كي حرمت پر كتاب و سنت ميں دلائل پائے جاتے ہيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
نبى اور دوسرے مسلمانوں كو جائز نہيں كہ وہ مشركين كے ليے بخشش كى دعا مانگيں اگرچہ وہ رشتہ دار ہى ہوں اس امر كے ظاہر ہو جانے كے بعد كہ يہ لوگ دوزخى ہيں، اور ابراہيم عليہ السلام كا اپنے باپ كے ليے بخشش كي دعا كرنا وہ صرف ايك وعدہ كے سبب تھا جو انہوں نے اس سے وعدہ كر ليا تھا ، پھر جب ان پر يہ بات ظاہر ہو گئى كہ وہ اللہ تعالى كا دشمن ہے تو اس سے محض بے تعلق ہو گئے واقعى ابراہيم عليہ السلام نرم دل اور بردبار تھے التوبۃ ( 113 – 114 ) .
اس آيت كي تفسير ميں شيخ سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يعنى: مومنوں اور نبى صلى اللہ عليہ كے لائق اور ان كي شايان شان نہيں كہ وہ مشركوں كے ليے مغفرت كي دعاء كريں، يعنى جو اللہ تعالى كے ساتھ كفر كرتا اور اس كے علاوہ كسى اور كي عبادت كرتا ہے، اگرچہ وہ قريبى رشتہ دار ہى كيوں نہ ہو، اس كے بعد كہ ان كے ليے يہ بات ظاہر ہو چكى ہو كہ وہ جہنمى ہيں. ..
اوراگرچہ ابراہيم خليل عليہ السلام سے اپنے باپ كے ليے دعائے مغفرت پائى گئى ہے ليكن يہ دعا صرف ايك وعدہ كي بنياد پر تھى جو انہوں نے اپنے باپ سے كيا تھا، وہ وعدہ اس قول ميں ہے: ميں تمہارے ليے اپنے رب سے بخشش طلب كرونگا اس ليے كہ وہ ميرے ساتھ بڑا مشفق ہے اور پھر وہ دعا اور وعدہ اس وقت تھى جبكہ انہيں اپنے باپ كے انجام كا علم نہ تھا، اور جب ابراہيم عليہ السلام كو اس كا علم ہوا كہ ان كا باپ اللہ كا دشمن ہے اور وہ كفر پر مرے گا اور اسے وعظ ونصيحت كوئي فائدہ نہيں دے گى تو انہوں نے اپنے رب كى موافقت اور اللہ تعالى كے ساتھ ادب كرتے ہوئے اس سے برات كا اظہار كيا.
بلا شبہ ابراہيم عليہ السلام بڑے نرم دل تھے يعنى وہ سب معاملات اور امور ميں اللہ تعالى كى طرف رجوع كرنے والے اور كثرت كے ساتھ ذكر اور دعا اور استغفار اور اپنے رب كي طرف انابت كرنے والے تھے.
حليم اور بہت برد بار تھے: يعنى مخلوق كے ساتھ رحمدلى كرنےوالے اور جو كچھ غلطياں اور كوتاہياں ان سے سرزد ہوتى ان پر معاف كرنے والے تھے، وہ جاہل كى جہالت پر پكڑ نہيں كرتے تھے اور نہ ہى جرم كرنے والے كے جرم كى بنا پر اسے سزا ديتے تھے، ان كے باپ نے انہيں كہا: ميں تمہيں پتھر مار مار كر ہلاك كردونگا، تو ابراہيم عليہ السلام نے جواب ميں فرمايا: آپ پر سلامتى ہو ميں آپ كے ليے اپنے رب سے بخشش طلب كرونگا" اھ.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح بخارى ميں مندرجہ ذيل حديث نقل كى ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب كے سامنے اس كى موت كے وقت اسلام پيش كيا تو اس نے اسلام قبول كرنے سے انكار كر ديا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " ميں تيرے ليے اس وقت تك بخشش طلب كرونگا جب تك مجھے اس سے منع نہ كرديا جائے، تو يہ آيت نازل ہوئى:
نبى اور دوسرے مسلمانوں كو جائز نہيں كہ وہ مشركين كے ليے بخشش كى دعا مانگيں اگرچہ وہ رشتہ دار ہى ہوں اس امر كے ظاہر ہو جانے كے بعد كہ يہ لوگ دوزخى ہيں
اور يہ آيت بھى نازل ہوئى: بلاشبہ جسے آپ چاہيں ہدايت نہيں دے سكتےصحيح بخاري حديث نمبر ( 3884 )
حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" جب تك ميں اسے روك نہ ديا جاؤں " يعنى دعائے مغفرت كرنے سے ، اور ايك روايت ميں ہے كہ " آپ سے " اھ.
اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح مسلم ميں ابوہريرہ رضي اللہ تعالى عنہ سے حديث روايت كى ہے كہ:
ابوہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں نے اپنے رب سے اپنى والدہ كے ليے دعائے مغفرت كي اجازت طلب كي تو مجھے اجازت نہ ملى، اور ميں نے اس كي قبر كي اجازت مانگى تو مجھے اس كي اجازت دے دى گئى. صحيح مسلم حديث نمبر ( 976 ) ,
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حديث ميں كفار كے ليے بخشش اور استغفار كي دعا كرنے كى ممانعت پائى جاتى ہے. اھـ
ان دونوں حديثوں سے يہ واضح ہے كہ كفار كے ليے استغفار طلب كرنے سے منع كيا گيا ہے يعنى ان كے ليے بخشش كي دعا كرنا منع ہے اور اسى طرح ان كے ليے جنت ميں داخل ہونے كي دعا كرنا يا پھر عذاب سے نجات كى دعا كرنا منع ہے .
اور اس كي حكمت يہ ہے كہ:
اس حالت ( يعنى جب ان كے متعلق يہ واضح ہو چكا ہو كہ وہ جہنمى ہيں ) ميں ان كے ليے دعائے استغفار اور ان كے ليے بخشش طلب كرنا غلط ہے اس كا كوئي فائدہ نہيں نبى اور مومنوں كويہ زيب نہيں ديتا كہ وہ لوگ جو كفر يا شرك پر مر جائيں يا پھر جن كے متعلق علم ہو جائے كہ ان پر عذاب ثابت ہوچكا ہے اور ان پر جہنم ميں ہميشہ رہنا واجب ہو چكا ہے تو پھر ان كو كسى بھى سفارش كرنے والے كى سفارش اور نہ ہى استغفار كرنے والوں كى استغفار ہى كوئي فائدہ دے گى.
اور يہ بھى ہے كہ: نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور ان پر ايمان لانے والوں كو چاہيے كہ وہ اپنے رب كي رضا اور اس كى ناراضگى اور غضب ميں اس كي موافقت كريں، اور وہ اس سے دوستى اور موالاۃ ركھيں جس سے اللہ تعالى دوستى اور موالاۃ ركھے، اور جن سے اللہ تعالى دشمنى ركھے وہ بھى اس سے دشمنى ركھيں، اور جس شخص كے بارہ ميں يہ واضح ہو چكا ہو كہ وہ جہنمى ہے اس كے ليے ان كا استغفار كرنا اس عقيدہ كے مخالف اور مناقض ہے. اھ يہ قول شيخ سعدى رحمہ اللہ تعالى كا ہے .
اور كفار كے ليے ہدايت كي دعا كرنا استغفار ميں شامل نہيں جس سے منع كيا گيا ہےاور يہ اس ميں شامل نہيں ہوتى.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بھى بعض كفار كے ليے ہدايت كي دعا ثابت ہے .
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى صحيح بخارى ميں كہتے ہيں:
تاليف قلب كے ليے مشركوں كى ہدايت كي دعا كرنے كا باب :
پھر انہوں نے ابو ہريرہ رضي اللہ تعالى عنہ كي حديث ذكر كي ہے ابوہريرہ رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ طفيل بن عمرو رضي اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور كہنے لگے: دوس قبيلہ نے نافرمانى كى اور انكار كرديا ہے لھذا آپ ان كے خلاف بد دعا كريں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اے اللہ دوس قبيلہ كو ہدايت نصيب فرما اور انہيں يہاں لا " صحيح بخارى حديث نمبر ( 2937 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2524 ) .
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ميں كہتے ہيں:
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے طفيل عمرو الدوسى رضي اللہ تعالى عنہ كے آنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان اے اللہ دوس كو ہدايت نصيب فرما" كے متعلق ابو ہريرہ رضي اللہ تعالى عنہ كي حديث ذكر كي ہے، اور يہ حديث باب كے عنوان ميں ظاہر ہے، اور ان كا يہ كہنا كہ: " تا كہ ان كي تاليف قلب ہو سكے" يہ مصنف كي تفقہ ميں سے ہے اور دونوں مقام كي طرف مصنف كي جانب سے اشارہ ہے، كہ بعض اوقات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كفار كے ليے بد دعا كرتے تھے اور بعض اوقات ان كے ليے دعا فرمايا كرتے تھے، لھذا پہلى حالت اس وقت ہوتى جب كفار كى طاقت اور قوت زيادہ ہو جاتى اور ان كي جانب سے اذيت ميں اضافہ ہوتا، اور دوسرى حالت اس وقت پيدا ہوتى جب ان كى جانب سے مكر وفريب اورتكليف سے امن ہوتا، اور ان كي تاليف قلب كى اميد ركھى جاتى جيسا كہ قبيلہ دوس كے قصہ ميں ہے. اھـ
اور امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے ابو موسى اشعرى رضي اللہ تعالى عنہ سے روايت بيان كى ہے وہ كہتے ہيں كہ:
يہودى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس اس ليے چھنك ليتے كہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم انہيں دعا ديں اور يرحمك اللہ كہيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں يہديكم اللہ و يصلح بالكم كہتے ( اللہ تمہيں ہدايت دے اور تمہارى حالت درست فرمائے ) . جامع ترمذى جديث نمبر ( 2739 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ابوموسى رضي اللہ تعالى عنہ كى حديث اس پر دلالت كرتى ہے كہ وہ ( يعنى كفار ) چھينك كي دعا ميں مطلقا شامل ہيں، ليكن چھينك كي خاص دعا جو كہ ان كى ہدايت كي دعا اور ان كے حالات كي اصلاح كى دعا ہے اس ميں كوئي مانع نہيں ، مسلمانوں كو چھينك كي دعا دينے كے خلاف كيونكہ مسلمان رحمت كى دعا كے اہل ہيں ليكن كافر نہيں. اھـ .
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب