كيا سخت كام كرنے والوں كے ليے رمضان المبارك ميں روزہ نہ ركھنا جائز ہے، مثلا سٹيل ملز كے كاركنان يا اسى دوسرے دوسرے سخت قسم كے كام كرنے والے ؟
كيا كام كى مشقت كے باعث روزہ چھوڑ ديا جائے ؟
سوال: 43772
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بعض علماء كرام نے ان كے ليے روزہ نہ ركھنے كى اجازت دى ہے، پھر يہ فتوى الشيخ عبد اللہ بن محمد بن حميد اور عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كے سامنے پيش كيا گيا تو ان كا كہنا تھا:
" اصل ميں رمضان المبارك كا روزہ ركھنا اور رات ہى روزے كى نيت كرنا سب مكلف مسلمانوں پر فرض ہے، صرف وہ لوگ روزہ نہيں ركھينگے جنہيں شريعت نے روزہ چھوڑنے كى اجازت دى ہے مثلا مريض اور مسافر اور ان جيسے دوسرے لوگ.
اور سخت قسم كے كام كرنے والے لوگ عمومى مكلفين ميں شامل ہوتے ہيں، وہ بيماروں اور مسافروں كے معنى ميں نہيں آتے، اس ليے ان كے ليے رات كے وقت ہى روزے كى نيت كرنا اور صبح روزہ ركھنا واجب ہے، ان ميں سے جو شخص بھى دن كے دوران روزہ توڑنے پر مجبور ہو جائے تو اپنى مجبورى ختم كرنے كے ليے روزہ توڑ سكتا ہے، ليكن اسے باقى دن كا حصہ بغير كھائے پيئے گزارنا ہو گا، اور مناسب وقت ميں اس روزہ كى قضاء كرنا ہوگى.
ليكن جسے كوئى ضرورت نہ ہو تو اس كے ليے روزہ مكمل كرنا واجب ہے، كتاب و سنت كے شرعى دلائل تو اسى پر دلالت كرتے ہيں، اور سب مذاہب كے محققين كى كلام بھى اسى پر دلالت كرتى ہے.
مسلمانوں كے ذمہ داران كو چاہيے كہ جن كے پاس بھى مشكل كام كاج والے افراد ہوں تو رمضان المبارك آنے پر ـ اگر ممكن ہو سكتے تو ـ تو وہ انہيں ايسے كام كا مكلف نہ كريں جس كى بنا پر انہيں دن كو روزہ افطار كرنا پڑے، بلكہ وہ ان كى ڈيوٹى رات كے وقت ليں، يا پھر دن كے وقت كاركنان ميں ڈيوٹى كو عدل و انصاف كے ساتھ تقسيم كر ديں، تا كہ روزہ اور كام دونوں ميں موافقت پيدا ہو سكے.
جس فتوى كى طرف اشارہ كيا گيا ہے وہ افرادى معاملہ ہے، جس ميں انہوں نے اپنے اجتھاد كے ساتھ فتوى ديا ہے، جس ميں وہ قابل تعريف اور مشكور ہيں، مگر ان سے وہ قيود و ضوابط بيان كرنے رہ گئے ہيں جو ہم بيان كر چكے ہيں، اور ہر مذہب كے محققين نے مقرر كيے ہيں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعاء ہے كہ ہر ايك كو خير و بھلائى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے" انتہى.
الشيخ عبد اللہ بن محمد بن حيمد رحمہ اللہ، چيف جسٹس سپريم كورٹ اور رئيس نگران كميٹى دينى امور مسجد حرام.
الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ رئيس عام ادارہ بحوث علميہ و الافتاء و الدعوۃ والارشاد.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز رحمہ اللہ ( 14 / 245 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب