اگر طلاق دینے کی نیت نہ ہو، تو لکھ کر طلاق دینے سے طلاق نہیں ہو گی، تو کیا یہی بات ظہار ، خلع، لعان اور فسخ جیسی دیگر چیزوں پر بھی لاگو ہو گی؟
کیا خلع یا ظہار کی نیت سے تحریر لکھنے پر خلع یا ظہار ہو جاتا ہے ؟
سوال: 442021
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
زبان سے طلاق کہے بغیر صرف تحریری طور پر طلاق دینے سے تبھی طلاق ہو گی جب نیت بھی ہو؛ کیونکہ تحریری طلاق ، طلاقِ کنایہ میں شمار کی جاتی ہے یہ صریح طلاق نہیں ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (70460) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
تحریری طور پر ظہار بھی تبھی ہو گا جب ظہار کی نیت ہو گی، بالکل ایسے ہی جیسے تحریری طلاق کا معاملہ ہے۔
الحاوی الکبیر: (10/ 169) میں ہے کہ:
“تحریرا ظہار کرنے کے متعلق دو اقوال ہیں، ایک یہ ہے کہ یہ بھی طلاق کی مانند ہی ہے۔
جبکہ تحریری ایلا کے متعلق ایک ہی موقف ہے کہ ایلا تحریری طور پر نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ ایلا در حقیقت اللہ تعالی کی قسم اٹھانا ہوتا ہے، اور قسم کنایہ سے نہیں ہو سکتی۔” ختم شد
سوم:
تحریرا خلع بھی نیت کے ساتھ ہی ہو گا، لہذا لکھ کر خلع تبھی ہو گا جب خلع کی نیت بھی ہو۔
جیسے کہ خلع کی صورتوں کے متعلق “نهاية المحتاج” (6/ 407) میں ہے کہ:
“نیت کے ساتھ خلع کی کتابت کی جائے تو یہ زبان سے خلع کے مترادف ہے۔” ختم شد
جبکہ فسخ نکاح ایک حکم ہے جو کہ مخصوص حالات میں لاگو ہوتا ہے، مثلاً: زوجین میں سے کسی میں کوئی عیب پایا جائے، یا زوجین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو جائے ، یا عقدِ نکاح میں رکھی گئی شرط پوری نہ کی جائے تو نکاح پر فسخ کا حکم نافذ کیا جاتا ہے۔
چہارم:
لعان بھی صرف تحریری طور پر کرنا درست نہیں ہو گا؛ کیونکہ لعان میں بھی اللہ تعالی کی قسم اٹھائی جاتی ہے اس لیے کنایہ استعمال کرتے ہوئے ہوئے لعان نہیں ہو گا، بالکل ایسے جیسے ایلا کے متعلق گفتگو “الحاوی” سے پہلے نقل کی جا چکی ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات