جب كوئى شخص نذر مانے اور اسے پورى بھى كردے تو كيا وہ خود بھى اس سے كھا سكتا ہے كہ نہيں ؟
نذر پورى كرنے كى شكل ميں كيا اسے خود بھى كھا سكتا ہے؟
سوال: 44874
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نذر مانى گئى چيز ميں اصل تو يہى ہے كہ جب وہ شرعى امور ميں سے ہو تو اسے وہيں صرف كيا جائے جس ميں نذر مانى گئى ہے، اور جب كوئى مقرر نہ كيا گيا تو وہ صدقات ميں سے ايك صدقہ ہى ہے، اسے وہيں صرف كيا جائے گا جہاں صدقات ديے جاتے ہيں، مثلا: فقراء و مساكين ميں تقسيم كيا جائے.
اور رہا مسئلہ نذر ميں سے كھانے كا تو اس كے بارہ ميں گزارش ہے كہ اگر نذر ماننے والے كے علاقے اور ملك ميں يہ عادت ہو كہ جب كوئى شخص نذر مانے تو وہ خود بھى اس ميں سے كھاتا ہے تو اس عرف اور عادت كى بنا پر اس كے ليے بھى كھانا جائز ہے.
اور اسى طرح جب وہ اس ميں سے كھانے كى نيت كرے تو نيت اور عرف عام اس جزء كے ساتھ خاص ہو، اور نذر مانى ہوئى چيز ميں داخل نہيں ہونى چاہيے.
اس سلسلے ميں مستقل فتوى كميٹى كا ايك فتوى جارى ہوا ہے جسے ذيل ميں ديا جاتا ہے:
اطاعت و فرمانبردارى ميں مانى گئى نذر كا مصرف وہى ہے جس كى نيت نذر ماننے والے نے شريعت كى حدود ميں رہتے ہوئے كى ہو، اگر اس نے نذر كے گوشت كى نيت فقراء كے ليے كى ہے تو اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ خود بھى اس ميں سے كھائے، اور اگر اس نے يہ نيت كى ہو كہ وہ اپنے گھر والوں اور دوست و رفقاء كو كھلائے گا تو وہ خود بھى ان ميں سے ايك ہے اس ليے اس كا كھانا بھى جائز ہے.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” عملوں كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ہو ”
اور اسى طرح اگر اس نے اپنى نذر ميں اس كى شرط لگائى ہو يا پھر اس كے علاقے اور ملك كے عرف عام يا عادت ہو.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 390 ).
اور مستقل فتاوى كميٹى كے ايك اور فتوى ميں ہے كہ:
جس نے ايسى نذر مانى جس كى بنا پر اسے كھانا كھلانا پڑے تو نذر ماننے والا اس ميں سے خود نہ كھائے، الا يہ كہ اس نے يہ شرط ركھى ہو يا نيت كى ہو كہ وہ بھى اس ميں سے كھائے گا، تو اس حالت ميں اس كے ليے اس نذر ميں سے كھانا مباح ہو گا، اس كى شرط يا نيت كے مطابق.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 392 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب