ميرى تھوڑا عرصہ قبل ہى شادى ہوئى ہے، اور ميں اپنے خاوند كى دوسرى بيوى ہوں، اس كى پہلے بھى ايك بيوى ہے ميرے خاوند كى والدہ كا مطالبہ ہے كہ وہ مجھے طلاق دے دے اس ليے نہيں كہ ميں مجھ ميں كوئى برائى ہے، ليكن صرف اس ليے كہ اس كى بہنوں كے خاوند بھى اسے ديكھ كر دوسرى شادى نہ كر ليں.
ميرى ساس كا كہنا ہے كہ اسے اس سے ہونے والے گناہ كى كوئى پرواہ نہيں، اہم چيز يہ ہے كہ كہيں ايك سے زائد شاديوں كا رواج ہى نہ پڑ جائے.
آپ يہ بتائيں كہ اس سلسلہ ميں شرعى رائے كيا ہے، كيا ميرے خاوند كے ليے اپنى والدہ كى بات ماننا ضرورى ہے، يہ علم ميں رہے كہ ميں اپنے خاوند كے ساتھ اللہ كى رضامندى والى زندگى بسر كر رہى ہوں.
والدہ دوسرى بيوى كو طلاق دلوانا چاہتى ہے تا كہ اسے ديكھ كر كوئى اور بھى ايك سے زائد شادياں نہ كر لے
سوال: 44923
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
والدہ كو كوئى حق نہيں كہ وہ بہو كو طلاق دينے كا حكم دے، صرف اس ليے كہ بيٹے نے خاندان يا قبيلہ كے عرف اور رواج كى مخالفت كرتے ہوئے ايك سے زائد بيوى كر لى ہيں، يا اس خدشہ كے پيش نظر كے بيٹے كے بہنوئى بھى اسے ديكھتے ہوئے دوسرى شادى كر ليں گے.
حالانكہ ايك سے زائد شادياں كرنا تو اللہ سبحانہ و تعالى نے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى مباح كيا ہے.
بيوى كو طلاق دينے كے مطالبہ ميں بيٹے كو والد يا والدہ كے حكم كى اطاعت كرنا واجب نہيں، اور خاص كر جب اس كا سبب شرعى رغبت سے متصادم ہو، يعنى شرعى رغبت تو يہ ہے كہ نسل زيادہ كى جائے اور مسلمان عورتوں كى عفت و عصمت قائم كى جائے، اور فساد و خرابى كو دور اور كم كيا جائے.
مطالب اولى النھى ميں درج ہے:
اور بيٹے پر ( طلاق كے مسئلہ ميں اپنے والدين كى اطاعت واجب نہيں ) اگرچہ والدين ( عادل ہى ہوں ) كہ وہ ان كى اطاعت كرتا ہوا اپنى بيوى كو طلاق دے دے؛ اس ليے كہ يہ نيكى كا كام نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 5 / 320 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص شادى شدہ ہے اور اس كى اولاد بھى ہے، ليكن اس كى والدہ اس كى بيوى كو ناپسند كرتى اور اسے طلاق دينے كا مشورہ ديتى ہے كيا بيٹے كے ليے اپنى بيوى كو طلاق دينا جائز ہے ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
" اس كے ليے ماں كے كہنے پر اپنى بيوى كو طلاق دينا حلال نہيں، بلكہ بيٹے كو اپنى ماں كے ساتھ حسن سلوك كرنا چاہيے، اور بيوى كو طلاق دينا ماں كے ساتھ حسن سلوك ميں سے نہيں ہے، واللہ تعالى اعلم " اھـ
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 331 ).
اس ليے آپ كے خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى والدہ كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آئے، اور آپ كو اپنے نكاح ميں ہى ركھے كيونكہ اس كا اپنى بيوى كو طلاق دينا ماں كے ساتھ حسن سلوك ميں شامل نہيں ہوتا.
اور اس ماں كو نصيحت كرنا ضرورى ہے، اور اسے يہ ياد دلانا چاہيے كہ شريعت اسلاميہ كى پيروى و اتباع كرنا اور اس كى تنفيذ ضرورى ہے، اور گناہ والا كام كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، اور اسے يہ علم ہونا چاہيے كہ اس كى بيٹيوں كو طلاق ہونا، يا پھر ان كے ليے سوكنوں كا آنا، يا ان كا اس سے محفوظ رہنا يہ سب غيب كى باتيں ہيں، جس كا علم صرف اللہ سبحانہ و تعالى كو ہے، اور وہى علم ركھتا ہے كہ ان كے مقدر ميں كيا لكھا ہے، اس ليے حرام كام كے ارتكاب اور بيٹے كا گھر اجاڑنے كى كوئى وجہ نظر نہيں آتى.
اے بہن ہمارى آپ كو نصيحت يہى ہے كہ آپ اپنى ساس كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آنے كى كوشش كريں، اور اس كى محبت و پيار كو حاصل كريں، تا كہ آپ كا ساس كے ساتھ معاملات بہتر ہونے كى صورت ميں وہ اپنے طلاق كے مطالبہ سے باز آ جائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب