ایک خیراتی ادارہ اپنے ملازمین اور زیر کفالت طلبا ءکو زکاۃ قسطوں کی شکل میں دیتا ہے تحفیظ القرآن ٹرسٹ کے پاس صاحبِ حیثیت لوگوں کی طرف سے دی گئی زکاۃ کی رقم ہے ، ٹرسٹ اپنے ماتحت پڑھنے والے مستحق بچوں کو زکاۃ کی رقم وقتاً فوقتاً تقسیم کرتا رہتا ہے، یا پھر سال بھر میں دو بار دی جاتے ہیں۔
ٹرسٹ کے کچھ ملازمین کی مالی حالت بہت تنگ ہے، ان کی تنخواہیں ضروریات زندگی پوری کرنے کیلئے ناکافی ہوتی ہیں ، کچھ قرضوں تلے دبے ہوئے ہیں، جس کی بنا پر ٹرسٹ انہیں بھی زکاۃ کی مد میں سے رقم دیتا رہتا ہے، اور انہیں واضح کر دیا جاتا ہے کہ یہ زکاۃ ہے، لیکن اب صورت ِ حال یہ ہے کہ ملازمین کی گرتی ہوئی صورتِ حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مستحق ملازمین کیلئے ماہانہ 1500 سے 2000 ریال مختص کر دیئے گئے ہیں، تو کیا اب ماہانہ شکل میں اس طرح زکاۃ ملازمین کو دینا جائز ہے؟
زکاۃ کی ادائیگی
سوال: 45185
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
زکاۃ ادا کرنے والوں کی نیابت کرتے ہوئے ٹرسٹ زکاۃ کے مستحقین میں زکاۃ تقسیم کر سکتا ہے، ٹرسٹ کی انتظامیہ کو اس پر اجر و ثواب ملے گا۔ ان شاء اللہ
دوم:
ٹرسٹ کے زیر انتظام تعلیم حاصل کرنے والے طلبا ءاور ملازمین اگر زکاۃ کے مستحق ہیں تو انہیں زکاۃ دی جا سکتی ہے، اور اسی طرح اگر مقروض ہیں تو اپنے قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھی زکاۃ سے رقم وصول کر سکتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ التوبہ:60]
سوم:
زکاۃ کی ادائیگی وقت ِمقررہ سے تھوڑی بہت تاخیر کے علاوہ بغیر کسی معقول عذر یا مصلحت کے زیادہ مؤخر کرنا درست نہیں ہے، معقول عذر میں یہ امور شامل ہیں کہ : مستحقین ِزکاۃ میسر نہ ہوں، یا ابھی رقم ہاتھ میں نہ ہو، یا کسی رشتہ داری کی آمد کا انتظار ہو۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص اپنے کسی قریبی رشتہ دار ، یا زیادہ غریب شخص کو زکاۃ دینے کیلئے زکاۃ کی ادائیگی مؤخر کرتا ہے تو تھوڑی بہت تاخیر میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن زیادہ تاخیر کرنا درست نہیں ہوگا" انتہی
"المغنی " (2/290)
دائمی فتوی کمیٹی سے ایک ایسے رفاہی ادارے کے بارے میں پوچھا گیا جو مالدار لوگوں سے زکاۃ لیکر مستحقین تک پہنچانے میں ایک سال تک تاخیر کر دیتی ہے، اس کیلئے ان کے پاس یہ جواز ہے کہ ہم ربیع الاول اور پھر رمضان میں زکاۃ صرف کرتے ہیں، ایسی صورت میں تاخیر کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ زکاۃ دینے والوں نے وقت پر زکاۃ ادا کر کے ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈال دی ہے۔
تو کمیٹی نے جواب دیا:
"رفاہی ادارہ مستحقین میں زکاۃ صرف کر دے، اور مستحقین کی موجودگی میں اسے مؤخر مت کرے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (9/402)
اگر زکاۃ واجب ہونے کے وقت سے لیکر مستحقین تک پہنچنے میں تاخیر ہو تو ماہانہ تعاون کی شکل میں زکاۃ ادا کرنا جائز نہیں ہے۔
لیکن اگر فقرا ءمیں زکاۃ کی تقسیم ماہانہ اقساط کی شکل میں کرنے کی ضرورت پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ اس کیلئے زکاۃ پیشگی ادا کی جائے گی، یعنی مالدار افراد اپنے مال کی زکاۃ وقت آنے سے پہلے ادا کریں، تو ایسی صورت میں ماہانہ اقساط کی شکل میں زکاۃ ادا کرنا جائز ہے، بس یہ خیال رہے کہ زکاۃ فرض ہونے کا وقت آنے سے پہلے زکاۃ ادا ہو چکی ہو اس سے تاخیر نہ ہو۔
اس کیلئے رفاہی ادارے کو مالدار افراد سے بات کرنی ہوگی کہ وہ اپنی زکاۃ پیشگی ادا کر دیں، تا کہ ٹرسٹ ماہانہ اقساط کی شکل میں غریبوں کو زکاۃ ادا کریں، اور فقراء و مساکین کی ضروریات مناسب انداز سے پوری ہوں۔
پیشگی زکاۃ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ مثال کے طور پر: زکاۃ واجب ہونے کا وقت ماہ صفر کی ابتدا میں ہے، تو صفر میں زکاۃ ادا کرتے ہوئے آئندہ سال کی زکاۃ بھی ساتھ ہی ادا کر دے، اس طرح پورے ایک سال کی زکاۃ پیشگی ادا ہو جائے گی، چنانچہ فرض کریں کہ اس سال کی زکاۃ ہزار روپے ہے تو اس صورت میں مزید ایک ہزار زکاۃ پیشگی ادا کرے، اور اسی طرح اس رقم کو پورے سال کی اقساط بنا کر بھی تقسیم کر سکتا ہے، جیسے اسے مناسب ہو کر لے، اور جب آئندہ سال بھی پورا ہوگا تو اس طرح اس کی زکاۃ بھی قسطوں کی شکل میں ادا ہو چکی ہوگی۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: زکاۃ دینے والا رشتہ داروں میں ماہانہ قسط وار طریقے سے زکاۃ نہ دے، یعنی زکاۃ کی ادائیگی میں تاخیر نہ کرے کہ انہیں ہر ماہ اس زکاۃ میں سے کچھ نہ کچھ دیتا رہے، لیکن اگر وہ پیشگی زکاۃ نکال کر رشتہ داروں میں یا دیگر مستحقین میں اکٹھی یا قسطوں میں ادا کرے تو ایسا کرنا جائز ہے، کیونکہ اس نے زکاۃ كو وقت سے مؤخر نہیں کیا" انتہی
"المغنی" (2/290)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے مندرجہ ذیل سوال کیا گیا:
"کیا میں پورے سال ہر ماہ اقساط کی شکل میں غریب لوگوں کیلئے زکاۃ نکال سکتا ہوں؟"
تو کمیٹی نے جواب دیا:
"اگر ضرورت ہو تو اپنی زکاۃ سال گزرنے سے پہلے پیشگی ایک یا دو سالہ زکاۃ ادا کی جا سکتی ہے، اور اِس صورت میں مستحقین کو ماہانہ اقساط کی صورت میں پہنچانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (9/422)
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (52852) کا مطالعہ کریں۔
خلاصہ یہ ہے کہ:
مذکورہ رفاہی ادارہ اُسی وقت ماہانہ اقساط کی شکل میں فقراء کو زکاۃ تقسیم کر سکتی ہے جب اس کے علم میں ہو کہ زکاۃ ادا کرنے والوں نے یہ زکاۃ پیشگی ادا کی ہے، نیز مذکورہ ٹرسٹ کے ذمہ داران مالدار طبقے کو پیشگی زکاۃ ادا کرنے کیلئے ترغیب بھی دلا سکتے ہیں؛ تا کہ ٹرسٹ ماہانہ یا سہ ماہی اقساط کی شکل میں غریبوں کو زکاۃ تقسیم کر سکے۔
چہارم:
اگر کوئی شخص زکاۃ کا مال غریب ، مسکین یا مقروض ہونے کی وجہ سے لیتا ہے تو انہیں زکاۃ دیتے ہوئے ایک بار ان کی حالت کے بارے میں اطمینان کر لینا چاہیے کہ واقعی وہ زکاۃ کا مستحق بھی ہیں یا نہیں، کیونکہ عین ممکن ہے کہ جو پہلے غریب ہو وہ اس وقت اللہ کے فضل سے امیر بن چکا ہو، تو ایسی صورت میں انہیں زکاۃ نہیں دی جا سکتی، چنانچہ شرعی مصارف میں زکاۃ کی تقسیم کیلئے ان باتوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ان رفاہی اداروں کے ذمہ داران کو ڈھیروں اجر و ثواب سے نوازے، اور ان کا حامی و ناصر ہو، نیز انہیں مزید اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات