میں حاملہ تھی اوردو ماہ بعد حمل ساقط ہوگيالھذامیں نے ایک محترمہ سے اس کے بارہ میں شرعی حکم پوچھا کہ آيا میں رمضان کےروزے رکھ سکتی اورنماز ادا کرسکتی ہوں ، تواس کا جواب تھا جی ہاں آپ روزے رکھیں اورنماز بھی ادا کریں ، اس لیے کہ ابھی بچے میں روح نہیں پھونکی گئي تھی ، لھذا اسے استحاضہ ہی شمار کیا جائے گا ، لھذا بالفعل میں نے روزے بھی رکھے اورنمازيں بھی ادا کیں ۔
لیکن مجھے ایک اور ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کو روزوں کی قضاء کرنا ہوگي ، اب آپ بتائيں کہ صحیح حکم کیا ہے ؟
کیا دو ماہ کا حمل ساقط ہونے پرآنےوالا خون نفاس ہوگا ؟
سوال: 45564
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سائلہ بہن آپ نے اس مسئلہ میں جودو قول سنے ہیں اس کی وجہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے ، اس لیے اس میں اہل علم کا صحیح قول یہی ہے کہ جب عورت متخلق یعنی وہ بچہ جس کی تخلیق واضح ہوچکي ہو کا حمل ساقط کرے تو وہ نماز روزہ چھوڑے گي اوراسے نفاس کا خون شمار کیا جائے گا ۔
لیکن اگر وہ متخلق یعنی بچے کی شکل وصورت واضح نہ ہوئي ہو اوریہ حمل ساقط ہوجائے تو اسے نفاس شمار نہیں کیا جائے گابلکہ یہ خون فاسد ہوگا اورعورت نماز روزہ کی ادائيگي کرے گي ، کم از کم مدت جس میں بچے کی تخلیق اورشکل وصورت واضح ہوتی ہے وہ اکیاسی ( 81 ) یوم ہیں ۔
اللجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) کے علماء کرام کہتےہیں :
جب بچے کی تخلیق ہوچکی ہواور اس کے اعضاء ہاتھ پاؤں اورسر وغیرہ واضح ہوچکے ہوں ، تواس حالت میں خون آتا رہے توچالیس یوم تک خون آنے کی حالت میں خاوند کے لیے بیوی سے جماع کرنا حرام ہے ، لیکن اگر چالیس یوم سے قبل ہی خون بند ہوجائے توبیوی کے غسل کے بعد اس سےجماع کرنا جائز ہے ۔
لیکن اگر بچے کے اعضاء ظاہر نہ ہوئے ہوں اوراس کی تخلیق واضح نہیں ہوئي تواس حالت میں حمل ساقط ہونے خاوند اپنی بیوی سے جماع کرسکتا ہے چاہے خون آتا بھی ہو کیونکہ یہ خون نفاس کا خون شمار نہیں ہوگا ، بلکہ یہ خون فاسد ہے اس حالت میں وہ نماز بھی ادا کرے گي اورروزے بھی رکھے گی ۔
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 5 / 422 ) ۔
اورشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
جب عورت ایسا حمل ساقط کرے جس میں انسان کی تخلیق واضح ہوچکی ہو اورسر پاؤں اورہاتھ وغیرہ واضح ہوچکے ہوں تواسے نفاس والی شمار کیا جائے گا ، اوراس کے احکام بھی نفاس والی عورت کے ہوں گے نہ تو وہ نمازادا کرے گي اورنہ ہی روزہ رکھے گي ، اورنہ ہی اپنے خاوند سے جماع کے لیے حلال ہے لیکن جب چالیس یوم مکمل ہوجائيں یا پھر اس سے قبل ہی پاک ہوجائے تواس پر غسل کرکے نماز ادا کرنی اورروزہ رکھنا واجب ہوگا ، اوراپنے خاوند کے لیے بھی حلال ہوجائے گی ۔۔۔
لیکن جب عورت کا ساقط کردہ صرف ایک گوشت کا لوتھڑا ہوجس میں شکل وصورت واضح نہ ہوئي ہو یا پھر جما ہوا خون ہو تواس صورت میں حمل ساقط ہونے کے بعد آنے والا خون استحاضہ شمار ہوگا اسے نفاس کا حکم نہیں دیا جائے گا اورنہ ہی وہ حیض کے حکم میں ہوگا ۔
لھذا وہ عورت نمازبھی ادا کرے گي اورروزے بھی رکھے گی ، اوراپنے خاوند کے جماع کے لیے بھی حلال ہوگي ۔۔۔ اس لیے کہ وہ اہل علم کے ہاں استحاضہ کے حکم میں ہے ۔
دیکھیں : فتاوی الاسلامیۃ ( 1 / 243 ) ۔
اورشیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
اہل علم کا کہنا ہے : اگرتوانسان کی شکل وصورت واضح ہوچکی ہو تواس حالت میں ساقط ہونے کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہوگا ، جس میں عورت نہ تو نمازادا کرے گي اورنہ ہی روزہ رکھے گی ، اورخاوند بھی پاک صاف ہونے تک اس سے اجتناب کرے گا ۔
لیکن اگر ساقط ہونے میں تخلیق واضح نہ ہو تو اس حالت میں آنے والا خون نفاس شمار نہيں ہوگا بلکہ وہ خون فاسد ہے جس کی بنا پر نماز روزہ ترک نہیں کرے گی اورنہ ہی کچھ اور ۔
اہل علم کا کہنا ہے : بچے کی شکل وصورت واضح ہونے کی کم از کم مدت اکیاسی ( 81 ) یوم ہیں ۔۔۔۔
دیکھیں : فتاوی المراۃ المسلمۃ ( 1 / 304 – 305 )
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب