ايك بچے عورت كے بيٹے كے ساتھ اس كا دودھ پيا، پھر اس عورت كو طلاق ہو گئى اور اس نے كسى اور مرد سے شادى كر لى اور اس خاوند سے بيٹے اور بيٹياں پيدا ہوئيں، اور اسى طرح اس كے پہلے خاوند نے بھى كسى دوسرى عورت سے شادى كر لى اور اس سے بيٹے اور بيٹياں پيدا ہوئيں ميرا سوال يہ ہے كہ:
مجھے اس بچے كے رضاعى بہن بھائيوں كے متعلق بتائيں آيا وہ اس عورت كے بيٹے بيٹياں ہيں يا كہ اس مرد كے، يہ علم ميں رہے كہ وہ عورت كہتى ہے كہ اس نے بچے كئى ايام دودھ پلايا ہے اس كا بيٹا ايك پستان سے اور دوسرا بچہ دوسرے پستان سے دودھ پيتا تھا ؟
عورت كى رضاعى اولاد كا دوسرے خاوند سے تعلق
سوال: 45620
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
1 ـ جب كوئى بچہ يا بچى كسى عورت كا پانچ رضاعت دو برس كى عمر ميں دودھ چھڑانے سے قبل دودھ پي لے تو آئمہ كا اتفاق ہے كہ وہ حرمت و تحريم ميں اس كا رضاعى بيٹا بن جائيگا، اور وہ شخص جس كى وطئ كى بنا پر وہ دودھ آيا اس دودھ پينے والے بچے كا رضاعى باپ بن جائيگا اس ميں مشہور آئمہ كا اتفاق ہے اور اسے ” لبن الفحل ” كا نام ديا جاتا ہے، اور اس كا ثبوت سنت نبويہ ميں ملتا ہے.
2 ـ اور جب مرد اور عورت دودھ پينے والے بچے كے رضاعى والدين بن گئے تو ان دونوں كى سارى اولاد اس دودھ پينے والے بچے كے رضاعى بہن بھائى ہونگے، چاہے وہ صرف والد كى جانب سے ہوں، يا پھر عورت كى جانب سے يا دونوں كى جانب سے، يا وہ ان دونوں كے رضاعى بچے ہوں.
وہ سب اس دودھ پينے والے بچے كے رضاعى بہن بھائى بن جائينگے، چاہے مرد كى دو بيوياں ہوں اور ايك بيوى نے بچے كو اور دوسرى بيوى نے بچى كو دودھ پلايا تو يہ دونوں رضاعى بہن بھائى ہونگے، اور دونوں ميں ايك كے ليے بھى دوسرے كے ساتھ شادى كرنا جائز نہيں اس ميں جمہور علماء اور آئمہ اربعہ كا اتفاق ہے.
اور اس مسئلہ كے متعلق ابن عباس رضى اللہ عنہما سے دريافت كيا گيا تو انہوں نے فرمايا:
” وطئ ايك ہے ” يعنى جس مرد نے دونوں عورتوں كے ساتھ وطئ كى حتى كہ دودھ آيا ہے وہ شخص ايك ہى ہے.
1 ـ مسلمانوں كا اتفاق ہے كہ اس ميں كوئى فرق نہيں كہ جس بچے نے عورت كا دودھ پيا ہے اس سے پہلى والى اولاد اور اس كے بعد پيدا ہونے والى اولاد ميں كوئى فرق نہيں وہ سب اس كے رضاعى بہن بھائى ہونگے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 31 – 32 ).
4 ـ عورت اور اس كى نسبى يا رضاعى اولاد اور بيٹيوں كا دوسرے خاوند كے ساتھ ولديت كے اعتبار سے كوئى تعلق نہيں كيونكہ دودھ تو پہلے خاوند كا ہے اور وہ ان سب كا والد ہے، ليكن اتنا ہے كہ دوسرا خاوند وہ ان كى والدہ كا خاوند ہے، اور اس شخص سے ان كى والدہ كى شادى كرنے سے اس عورت كى بيٹياں اس پر حرام ہو جائينگى كيونكہ وہ اس كى ربيبہ بن جائيگى ( يعنى وہ اس كى پرورش ميں ہيں ) اور اس شخص نے ان كى ماں سے دخول كر ليا ہے تو وہ اس كے ليے حرام ہو جائينگى.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تمہارى وہ پرورش كردہ لڑكياں جو تمہارى گود ميں ہيں، تمہارى ان عورتوں سے جن سے تم دخول كر چكے ہو النساء ( 23 ).
اور عورت كى رضاعى بيٹيوں كا دوسرے خاوند كے ساتھ كيا تعلق ہو گا جس كا دودھ نہيں ہے، آيا وہ ان كى ماں كا خاوند ہونے كى بنا پر حرام ہونگى يا كہ حرام نہيں ہيں، اس ميں علماء كرام كا معتبر اختلاف پايا جاتا ہے.
جمہور علماء كى رائے ميں عورت كى رضاعى بيٹياں دوسرے خاوند پر حرام ہيں كيونكہ وہ ان كى رضاعى ماں كا خاوند ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے راجح يہ قرار ديا ہے كہ وہ اس پر حرام نہيں ہونگى، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اسى كى متابعت كى ہے.
كيونكہ حديث ميں ہے:
” رضاعت سے بھى وہى حرام ہوتى ہيں جو نسب سے حرام ہوتى ہيں ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2645 ).
جمہور علماء كرام نے خاوند پر جن رضاعى بيٹيوں كو يہاں حرام قرار ديا ہے وہ نسب كے اعتبار سے حرام نہيں، بلكہ وہ تو سسرالى رشتہ كى بنا پر حرام ہيں، اس ليے يہ اس حديث ميں داخل ہى نہيں ہوتى.
اس قول كى بنا پر جنہيں اس عورت نے دودھ پلايا ہے انہيں چاہيے كہ وہ اس كے دوسرے خاوند سے پردہ كريں كيونكہ وہ ان كا محرم نہيں.
شيخ اين عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور اگر كوئى شخص اس مسئلہ ميں دميانى حالت ميں جائے اور وہ جمہور كے قول كے مطابق اس كے نكاح كو حرام كہے اور شيخ الاسلام كے قول كے مطابق كہ وہ اس كے محرم ميں شامل نہيں اور درميانى راہ اختيار كرتے ہوئے احتياط پر عمل كرے تو يہ وجہ بنتى ہے.
كيونكہ اس طريقہ سے احتياط سنت ميں وارد ہے وہ يہ كہ سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ اور عبد بن زمعہ زمعہ كے غلام كے متعلق كا جھگڑا ہوا تو سعد رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ ميرے بھائى عتبہ بن ابى وقاص كا بيٹا ہے جسے ميرے بھائى نے ميرے سپرد كيا تھا اور يہ اس كا بيٹا ہے.
اور عبد بن زمعہ كہنے لگا:
يہ ميرا بھائى ہے اور ميرے والد كى لونڈى كا بيٹا ہے جو ميرے باپ كے بستر پر پيدا ہوا ہے.
چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس ميں عتبہ كى واضح مشابہت ديكھى تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اے عبد بن زمعہ تو تيرے ليے ہے، اور بچہ بستر كا ہے ”
پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سودہ بنت زمعہ جو امہات المومنين ميں شامل ہيں سے فرمايا:
” اے سودہ تم اس سے پردہ كرو “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2053 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1457 ).
حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ فيصلہ كيا كہ وہ اس كا بھائى ہے، ليكن پھر بھى فرمايا كہ تم اس سے پردہ كيا كرو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس ميں عتبہ كے ساتھ واضح مشابہت ديكھى تھى.
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ حكم احتياط پر مبنى ہے، چنانچہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے شبہ كى بنا پر اس سے پردہ كرنے كا حكم ديا، اور سودہ كے بھائى ہونے كا فيصلہ اس ليے ديا كہ وہ ان كے والد كے بستر پر پيدا ہوا تھا ”
ماخوذ از: دروس الحرم المكى جلد ( 3 ) صفحہ ( 245 ).
مزيد تفصيل كے آپ سوال نمبر (40226 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات