0 / 0
8,22725/12/2006

قربانى ميں شراكت جائز ہے چاہے ان ميں سے كسى كا ارادہ صرف گوشت لينے كا ہى ہو

سوال: 45771

كيا قربانى ميں حصہ ڈالنا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ ان ميں بعض حصہ دار قربانى كى نيت نہيں ركھتے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

سوال نمبر ( 45757 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ: اونٹ يا گائے ميں حصہ ڈالنا جائز ہے، ليكن بكرے ميں حصہ نہيں ڈالنا جائز نہيں.

گائے يا اونٹ ميں حصہ ڈالنا جائز ہے چاہے ان ميں بعض حصہ دار قربانى نہ بھى كرنا چاہتے ہوں، بلكہ ان كا ارادہ صرف گوشت كھانے كا ہى ہو، يا پھر وہ گوشت فروخت كرنا چاہے يا اس كى كوئى اور غرض ہو.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” اونٹ يا گائے ميں قربانى كے ليے سات افراد حصہ ڈال سكتے ہيں، چاہے وہ سب ايك ہى خاندان سے تعلق ركھتے ہوں يا پھر مختلف خاندانوں سے، يا ان ميں سے بعض افراد صرف گوشت چاہے ہوں تو قربانى كرنے والے كى طرف سے قربانى ہو جائيگى، چاہے وہ قربانى نفلى ہو يا پھر نذر مانى ہوئى ہو، ہمارا يہى مسلك ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ اور جمہور علماء كرام كا بھى يہى قول ہے ” انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 8 / 372 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہے، اور اسى طرح گائے بھى اكثراہل اعلم كا قول يہى ہے…

پھر اس كے بعد اس كى دليل ميں كچھ احاديث ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:

جب يہ ثابت ہو گيا تو پھر چاہے حصہ دار ايك ہى گھر سے تعلق ركھتے ہوں، يا پھر مختلف گھرانے سے تعلق ركھنے والے ہوں، يا پھر ان كى قربانى فرضى ہو يا نفلى، يا ان ميں سے بعض اللہ كا قرب حاصل كرنے والے ہوں، يا بعض افراد صرف گوشت حاصل كرنا چاہيں تو سب برابر ہيں؛ كيونكہ ان ميں سے ہر ايك انسان كى جانب سے اس كا حصہ كفائت كرے گا، اس ليے كسى كى نيت دوسرے كى نيت كو نقصان نہيں دےگى ” انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 13 / 363 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android