كيا قربانى ميں حصہ ڈالنا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ ان ميں بعض حصہ دار قربانى كى نيت نہيں ركھتے ؟
قربانى ميں شراكت جائز ہے چاہے ان ميں سے كسى كا ارادہ صرف گوشت لينے كا ہى ہو
سوال: 45771
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سوال نمبر ( 45757 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ: اونٹ يا گائے ميں حصہ ڈالنا جائز ہے، ليكن بكرے ميں حصہ نہيں ڈالنا جائز نہيں.
گائے يا اونٹ ميں حصہ ڈالنا جائز ہے چاہے ان ميں بعض حصہ دار قربانى نہ بھى كرنا چاہتے ہوں، بلكہ ان كا ارادہ صرف گوشت كھانے كا ہى ہو، يا پھر وہ گوشت فروخت كرنا چاہے يا اس كى كوئى اور غرض ہو.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اونٹ يا گائے ميں قربانى كے ليے سات افراد حصہ ڈال سكتے ہيں، چاہے وہ سب ايك ہى خاندان سے تعلق ركھتے ہوں يا پھر مختلف خاندانوں سے، يا ان ميں سے بعض افراد صرف گوشت چاہے ہوں تو قربانى كرنے والے كى طرف سے قربانى ہو جائيگى، چاہے وہ قربانى نفلى ہو يا پھر نذر مانى ہوئى ہو، ہمارا يہى مسلك ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ اور جمہور علماء كرام كا بھى يہى قول ہے ” انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 8 / 372 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہے، اور اسى طرح گائے بھى اكثراہل اعلم كا قول يہى ہے…
پھر اس كے بعد اس كى دليل ميں كچھ احاديث ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:
جب يہ ثابت ہو گيا تو پھر چاہے حصہ دار ايك ہى گھر سے تعلق ركھتے ہوں، يا پھر مختلف گھرانے سے تعلق ركھنے والے ہوں، يا پھر ان كى قربانى فرضى ہو يا نفلى، يا ان ميں سے بعض اللہ كا قرب حاصل كرنے والے ہوں، يا بعض افراد صرف گوشت حاصل كرنا چاہيں تو سب برابر ہيں؛ كيونكہ ان ميں سے ہر ايك انسان كى جانب سے اس كا حصہ كفائت كرے گا، اس ليے كسى كى نيت دوسرے كى نيت كو نقصان نہيں دےگى ” انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 13 / 363 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات