سوال: توریہ [ذو معنی بات ]کرنے کا کیا حکم ہے؟
توریہ [ذو معنی بات ]کرنے کا حکم
سوال: 45865
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
توریہ [ذو معنی بات ]کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی بات سے ایسا معنی مراد لے جو ظاہر کے خلاف ہو، یہ دو شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1- الفاظ اس معنی کا احتمال رکھتے ہوں
2- توریہ کی وجہ سے کسی پر ظلم نہ ہو
چنانچہ اگر کسی نے کہا کہ میں تو “وتد” پر ہی سوتا ہوں، وتد ایک لکڑی کو کہتے جسے دیوار میں ٹھونک کر سامان لٹکایا جاتا ہے، [جیسے ہک وغیرہ] اور وہ کہے کہ میری وتد سے مراد پہاڑ ہے، چنانچہ یہ توریہ درست ہوگا، کیونکہ وتد کے دونوں معانی درست ہیں اور اس میں کسی پر ظلم بھی نہیں ہے۔
اسی طرح اگر کسی نے کہا کہ : “اللہ کی قسم میں سقف [چھت]کے نیچے ہی سوؤں گا” اور پھر چھت پر چڑھ کر سو گیا ، پھر وضاحت کی کہ میں نے سقف سے مراد آسمان لیا تھا، تو یہ بھی ٹھیک ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے آسمان کو قرآن مجید میں سقف کہا ہے، فرمایا: ( وجعلنا السماء سقفاً محفوظاً ) الأنبياء /32اور ہم نے آسمان کو محفوظ سقف [چھت] بنایا ۔
جبکہ توریہ اگر ظلم ڈھانے کیلئے کیا جائے تو جائز نہیں ہوگا، جیسے کسی نے ایک آدمی کا حق ہڑپ کرلیا، اور مظلوم انسان قاضی کے پاس چلا گیا لیکن اسکے پاس کوئی گواہ یا دلیل نہیں تھی تو قاضی نے ملزم سے کہا کہ تم قسم دو کہ تمہارے پاس مدعی کی کوئی چیز نہیں ہے تو اس نے قسم اٹھاتے ہوئے کہا: ” والله ما له عندي شيء ” [“ما” نفی کیلئے ہوتو اسکا معنی ہوگا: اللہ کی قسم اسکی کوئی چیز میرے پاس نہیں] تو قاضی نے ملزم کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اسے بری کردیا۔
تو ملزم کو لوگوں نے بتلایا کہ جو تم نے قسم اٹھائی ہے کہ یمین غموس ہے، اور جو بھی اس طرح کی قسم اٹھاتا ہے وہ جہنم میں جائے گا، جیسے کہ حدیث میں بھی آیا ہے: (جس شخص نے بھی جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا مال ہڑپ کیا ، وہ اللہ تعالی سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس غضبناک ہوگا)
تو ملزم جواب میں کہتا ہے کہ: میں نے تو نفی کی ہی نہیں، میں نے اثبات میں جواب دیا تھا، اور “ما لہ”لفظ کا مطلب میری نیت میں یہ تھا کہ یہ “ما”اسم موصول ہے یعنی میرا مطلب تھا: “اللہ کی ذات کی قسم ! میرے پاس اسکی چیز ہے”
چنانچہ مذکورہ لفظ اس مفہوم کا احتمال تو رکھتا ہے لیکن یہ ظلم ہے اس لئے جائز نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ: (تمہاری قسم اسی مفہوم میں معتبر ہوگی جس مفہوم میں قسم لینے والا سمجھے گا) اور اللہ کے ہاں اس قسم کی تأویل مفید نہیں ہوگی، اور ایسی صورت میں یہ قسم جھوٹی تصور ہوگی۔
ایسے ہی اگر ایک آدمی کی بیوی پر کسی نے تہمت لگادی حالانکہ وہ تہمت سے بری تھی ، تو اس آدمی نے کہہ دیا: “اللہ کی قسم یہ میری بہن ہے” اور یہاں پر بہن سے مراد اسلامی بہن لیا تو یہ توریہ درست ہوگا، کیونکہ وہ واقعی اسکی اسلامی بہن ہے جس پر ظلم کیا جا رہا تھا.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب