میں اللہ کے حکم سے اس برس حج کرنا چاہتاہوں اورریاض سے جدہ فضائي راستے ہوائي جہاز سے سفرکرونگا توبالتحدید کہاں سے احرام باندھنا ہوگا ؟
ہوائي جہازکا مسافر احرام کب باندھےگا ؟
سوال: 4635
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس حالت میں آپ کا میقات قرن منازل ہے جسے اس وقت سیل کبیر کہا جاتا ہے ۔
اورجوکوئي بھی جس میقات سے گزرے وہاں سے اس پراحرام باندھنا واجب ہے اوراگروہ میقات سے نہيں گزرتا تواس پرواجب ہے کہ جب وہ میقات کے محاذي اوربرابر ہوتواس پراحرام باندھنا واجب ہے ، چاہے وہ فضاء میں ہویا خشکی کے راستے یا سمندرکے راستے سے ۔
لھذا آپ پرواجب ہے کہ جب ہوائي جہاز میقات کے برابر ہوتواحرام باندھ لیں ، اوریہ دیکھتے ہوئے کہ ہوائي جہاز میقات سے بہت تیز رفتاری کے ساتھ گزرے گا تواس میں کوئي حرج نہیں کہ آپ احتیاطا میقات سے کچھ دیر قبل ہی احرام باندھ لیں ۔
شیخ ابن جبرین حفظہ اللہ کہتے ہیں :
اورجس کے راستے میں میقات نہ ہو ، وہ قریبی میقات کےمحاذی ہونے پراحرام باندھےگا چاہے وہ فضائي راستے سے آئے یا سمندری یا پھر خشکی کےراستے ، اورہوائي جہازکا مسافر اس وقت احرام باندھے گا جب وہ میقات کےبرابر اورمحاذي ہویا پھر وہ احتیاطا اس سے پہلے ہی احرام باندھ لے تا کہ وہ بغیراحرام میقات تجاوز نہ کرجائے ، اورجوکوئي میقات تجاوز کرنے کے بعد احرام باندھے اس کے ذمہ دم جبران لازم آتا ہے ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 198 ) ۔
اوراللجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) کا فتوی ہے :
جدہ صرف وہاں کے رہائشی اوررہنے والوں کےحج وعمرہ کا میقات ہے ، اوراسی طرح اس کا بھی میقات ہے جووہاں حج یا عمرہ کی نیت کیے بغیر ملازمت کی غرض سے آئے اوربعد میں حج یا عمرہ کرنے کا ارادہ بن جائے ، لیکن وہ جس سے پہلے میقات ہوجس طرح اہل مدینہ اوراس کےپیچھے یا میقات کے محاذی رہنے والوں کے لیے ذوالحلیفہ میقات ہے چاہے وہ فضائي راستے سے آئيں یا خشکی کے راستے سے ۔
اورجحفہ کے رہنے والوں اورجواس کے محاذي اوربرابر میں رہتے ہیں چاہے وہ فضائي راستے سے آئيں یا سمندر اورخشکی سے آئيں ، اور یلملم بھی اسی طرح ہے ، تواس پرواجب ہے کہ وہ اپنے میقات یا اس کے محاذي اوربرابر سے فضائي راستے سے ہویا سمندر اورخشکی کےراستے سے احرام باندھ کرآئے ۔اھـ
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ الافتاء ( 11 / 130 ) ۔
اورمیقات کے محاذي جگہ سے احرام باندھنے کی دلیل بخاری شریف کی مندرجہ ذيل حدیث ہے :
ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ جب یہ دونوں شھر ( کوفہ اوربصرہ ) فتح ہوئے تو اہل کوفہ اوراہل بصرہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اورکہنے لگے : اے امیرالمومنین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے لیے قرن ( قرن منازل ) کوحد مقررفرمایا اوریہ ہمارے راستے سے ہٹ کرایک طرف آتا ہے ، اوراگرہم قرن جائيں توہمیں بہت مشقت اٹھانا پڑتی ہے ۔
توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : تم اپنے راستے میں ہی اس کے برابر اورمحاذی جگہ دیکھ لو، توان کے لیے ذاب عرق کومقرر فرمایا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1458 ) ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی فتح الباری میں کہتے ہیں :
( تم اس کے محاذي جگہ کودیکھو ) یعنی جس راستے سے تم سفر کرتے ہووہاں میقات کے برابر اورمحاذی جگہ کومیقات شمار کرلو اوراپنے راستے سے ہٹ کروہاں نہ جاؤ ۔ اھـ دیکھیں : فتح الباری ( 3 / 389 ) ۔
یہ علم میں ہونا ضروری ہے کہ میقات سے قبل احرام باندھنا سنت نہيں ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا عمل نہيں کیا ، اورسب سے بہتر اوراچھا طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے ، لیکن جب انسان فضائي راستے سے ہوائي جہاز کے ذریعہ سفر کررہا ہو توہوائي جہاز کا میقات کے برابر اور محاذي جگہ پررکنا ممکن نہيں ، تووہ احتیاطا ظن غالب پراحرام باندھ لے تا کہ بغیر احرام میقات سے تجاوزنہ کرجائے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے والوں میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہيں کہ انہوں نے ذوالحلیفہ سے پہلے احرام باندھا ہو ، اوراگرمیقات متعین نہ کردیا ہوتا تووہ اس کی جانب جلدی کرتے کیونکہ اس میں زيادہ مشقت ہوتی اوراجر بھی زيادہ ہوتا۔ فتح الباری ( 3 / 387 ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب