بيس برس قبل ميں نے اپنى بيوى كو طلاق دى اور عدت ختم ہونے سے قبل اس سے رجوع كر ليا؛ اور اس كے دو برس بعد ميں نے اسے دوسرى طلاق دے دى اور اسے كہا:
تجھے طلا، تجھے طلاق، تجھے طلاق " اس سے ميرا مقصد تين طلاق تھا، ليكن عدت ختم ہونے سے قبل ميں نے بيوى سے رجوع كر ليا، اور كوئى كاروائى نہ كى نہ تو شادى كے اركان اور نہ كچھ اور، صرف اتنا كيا كہ ميں اپنے سسرال گيا اور بيوى كو اپنے گھر واپس لے آيا.
كيونكہ ميرا اعتقاد تھا كہ يہ طلاق بھى رجعى ہے، اور تيسرى بار آخرى مہينوں ميں نے اسے تيسرى طلاق دے دى ميں بہت ہى زيادہ نادم ہوں، اپنے ہاں ميں نے ايك عالم دين سے اسم سئلہ كے متعلق دريافت كيا تو اس كا جواب درج ذيل تھا:
پہلى طلاق كے بعد رجوع تو صحيح تھا، ليكن دوسرى طلاق كے بعد اور عدت سے قبل بيوى سے رجوع صحيح نہ تھا كيونكہ يہ طلاق بائن تھى جس سے بيوى كو بينونت صغرى حاصل ہوگئى تھى، اور آپ كے ذمہ واجب تھا كہ اسے واپس لانے سے قبل شادى كے اركان اور اعمال كرنے چاہيں تھے.
اور اس ليے كہ ميں نے يہ اعمال نہيں كيے تو يہ نكاح غير شرعى ہے، اور تيسرى طلاق كا كوئى معنى ہى نہيں كيونكہ يہ غير شرعى نكاح ميں ہوئى ہے. اس عالم دين نے ميرے ليے شادى كے اركان پورے كرنے كے بعد رجوع كرنا جائز قرار ديا، اس ليے كہ يہ معاملہ بہت بڑا تھا اور ميں حيران بھى ہوں اور اطمنان قلب چاہتا ہوں اس ليے ميں نے آپ كے سامنے يہ مسئلہ ركھا ہے، كيونكہ مجھے آپ پر بھروسہ ہے اور آپ كو ثقہ سمجھتا ہوں برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں فتوى سے نوازيں، آپ كى عين نوازش ہوگى.
بينونت صغرى اور كبرى اور تين طلاق كا مسئلہ
سوال: 46561
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
كسى بھى شخص كے ليے حلال و جائز نہيں ہے كہ وہ دين اسلام ميں بغير علم كے فتوى جارى كرتا پھرے، اور جس شخص نے بھى ايسا كيا وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ہوگا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
آپ فرما ديجئے كہ البتہ ميرے رب نے ان تمام فحش باتوں كو حرام كيا ہے جو اعلانيہ ہيں اور جو پوشيدہ ہيں، اور ہر گناہ كى بات كو اور ناحق كسى پر ظلم كرنے اور اس بات كو كہ تم اللہ كے ساتھ كسى ايسى چيز كو شريك ٹھراؤ جس كى اللہ نے كوئى سند نازل نہيں كى اور اس بات كو كہ تم لوگ اللہ كے ذمہ ايسى بات لگا دو جس كو تم جانتے نہيں الاعراف ( 33 ).
آپ كو اس شخص نے جو فتوى ديا ہے كہ دوسرى طلاق كے بعد آپ كو رجوع كرنا صحيح نہ تھا اور تيسرى طلاق نہيں ہوئى بلكہ آپ كو بيوى واپس لانے كے ليے نكاح كے اركان پورا كرنا ہونگے، اس كا يہ فتوى غلط ہے اور صحيح نہيں، اور يہ بغير علم كے اللہ پر قول شمار ہوتا ہے.
اس ليے جس نے بھى آپ كو يہ فتوى ديا ہے ـ اگر آپ نے اس كو صحيح نقل كيا ہے ـ اس شخص كو چاہيے كہ وہ توبہ و استغفار كرے، اور اس پر واجب ہے كہ آئندہ وہ فتوى نہ دے، اور خاص كر جب معاملہ عزت اور خون كے بارہ ميں ہو.
دوم:
طلاق رجعى يہ ہوتى ہے كہ جس ميں خاوند كو بيوى سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہو، اور رجوع كرنے ميں نہ تو مہر ہوتا ہے اور نہ ہى نكاح اور نہ ہى بيوى كى رضامندى شامل ہوتى ہے.
جس طلاق ميں خاوند كو رجوع كرنے كا حق حاصل ہوتا ہے وہ پہلى اور دوسرى طلاق ہے اور عدت ختم ہونے سے قبل رجوع كيا جا سكتا ہے، اگر پہلى يا دوسرى طلاق سے عدت ختم ہو جائے تو عورت كو بينونت صغرى حاصل ہو جاتى ہے، بيوى اپنے خاوند كے پاس اسى وقت آ سكتى ہے جب نيا نكاح اور نيا مہر گواہوں اور ولى كى موجودگى ميں عورت كى رضامندى سے نكاح كيا جائے، اس ميں اہل علم كا كوئى اختلاف نہيں پايا جاتا.
اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:
يہ طلاقيں دو مرتبہ ہيں، پھر يا تو اچھائى كے ساتھ روكنا ہے يا عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے، اور تمہيں حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو دے ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو، اس ليے اگر تمہيں ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گے تو عورت رہائى پانے كے ليے كچھ دے ڈالے، اس ميں دونوں پر كوئى گناہ نہيں، يہ اللہ كى حدود ہيں، خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ كى حدوں سے تجاوز كر جائيں وہ ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).
چنانچہ اگر خاوند تيسرى طلاق دے دے تو وہ عورت اس كے ليے حلال نہيں ہوگى، الا يہ كہ وہ عورت كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت كرے اور پھر دخول كرنے كے بعد وہ شخص اپنى مرضى سے اسے طلاق دے دے يا فوت ہو جائے ـ يہ بينونت كبرى ہے ـ اور اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:
پھر اگر وہ اس كو ( تيسرى بار ) طلاق دے دے تو ا باس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے علاوہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے، پھر اگر وہ بھى اسے طلاق دے دے تو ان دونوں كو ميل جول كر لينے ميں كوئى گناہ نہيں، بشرطيكہ وہ جان ليں كہ اللہ كى حدود كو قائم ركھ سكيں گے يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں جنہيں وہ جاننے والوں كے ليے بيان فرما رہا ہے البقرۃ ( 230 ).
سوم:
اگر ہم اس قائل كے بارہ ميں حسن ظن ركھتے ہوئے يہ كہيں كہ اس كى رائے ميں تين طلاق دينے سے تينوں طلاقيں واقع ہو جاتى ہيں تو پھر اس كے ليے اسے بينونت صغرى كہنے كى كوئى وجہ نہيں ہے، كيونكہ تين طلاق كے قائلين كے ہاں تينوں طلاقيں واقع ہو جاتى ہيں اور اس طرح بيوى كو بينونت كبرى حاصل ہو جاتى ہے، تو پھر اس كے ليے يہ كہنا كس طرح جائز ہوا كہ اسے بينونت صغرى حاصل ہوئى اور وہ اس كے پاس نئے نكاح اور نئے مہر كے ساتھ واپس آ سكتى ہے!!!
صحيح يہى ہے كہ ايك ہى مجلس ميں تين طلاق دينے سے ايك طلاق ہى واقع ہوتى ہے، اس كى تفصيل ہم سوال نمبر ( 96194 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں، آپ اس كا مطالعہ كريں.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور مبارك ميں اور عمر فاروق رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت كے دو برس ميں تين طلاق كوايك ہى شمار كيا جاتا تھا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1472 ).
چہارم:
آپ نے جو پہلى اور دوسرى طلاق كے بعد بيوى سے رجوع كيا وہ صحيح ہے، اور تيسرى طلاق كى بنا پر آپ كے ليے آپ پر بيوى حرام ہو گئى جس سے بيوى كو بينونت كبرى حاصل ہوئى اور وہ آپ كے ليے اجنبى ہے، اس عورت كو اس كے پورے حقوق ادا كرنے واجب ہيں، اور آپ كے ليے اس سے اس وقت تك شادى كرنا حلال نہيں جب تك وہ آپ كے علاوہ كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت نہ كر لے، اور وہ دوسرا شخص اپنى مرضى سے دخول كے بعد اسے طلاق دے يا پھر فوت ہو جائے تو آپ اس سے نكاح كر سكتے ہيں.
ليكن نكاح حلالہ جو آج كل كچھ لوگ كر رہے ہيں يہ حرام ہے، اور يہ نكاح فاسد ہے، اس سے عورت اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہوتى، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كى ہے.
اس كى مزيد تفصيل آپ سوال نمبر ( 109245 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات