كيا نذر اور عقيقہ اور وليمہ كے بدلے مال خرچ كرنا جائز ہے ؟
كيا نذر يا عقيقہ يا وليمہ كے بدلے رقم نكالنا جائز ہے ؟
سوال: 46827
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نذر كے سبب جو لازم آتا ہے اس كے بدلے رقم ادا كرنے سے نذر پورى نہيں ہو گى، الا يہ كہ اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنے كے ليے رقم دينے كى نذر مانى ہو، تو طرح اس نے نذر مانى ہے مال كى ادائيگى كرنا جائز ہے، ليكن اگر اس نے اپنا سارا مال خرچ كرنے كى نذر مانى ہو تو اس پر سارا مال دينا لازم نہيں ہوگا بلكہ وہ مال كا تيسرا حصہ خرچ كرے گا.
اور اسى طرح عقيقہ اور وليمہ كے بدلے ميں رقم كى ادائيگى كرنے سے عقيقہ اور وليمہ كى ادائيگى نہيں ہوگى، كيونكہ عقيقہ ميں سنت يہ ہے كہ لڑكے كى طرف سے دو اور لڑكى كى طرف سے ايك بكرى ذبح كى جائے، اور اسى طرح شادى كے وليمہ ميں بھى سنت يہ ہے كہ شادى كے بعد انسان وليمہ كى دعوت كرے چاہے ايك بكرى كے ساتھ ہى.
كيونكہ صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى كو ان كى شادى كے بعد فرمايا تھا:
” وليمہ كرو چاہے ايك بكرى ہى “
اس ميں سنت طريقہ تو يہى ہے، اور اس كے بدلے رقم اور مال خرچ كرنا خلاف سنت ہے، اور اس كى كوئى دليل نہيں ملتى، اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كيا، اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم نے ان كے بعد ايسا عمل كيا.
لہذا انسان كو چاہيے كہ وہ كتاب اللہ اور سنت نبويہ ميں جو صحيح ثابت ہے اس پر عمل كرے، اور اس كے علاوہ ہر چيز كو ترك كردے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے .
ماخذ:
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 392 )